کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 29
مسلمہ اُصولوں کی روشنی میں ردّ نہیں کیا جاسکتا، اسے ان وضعی اُصولوں میں سے کسی ایک اُصول کا سہارا لے کرٹھکرا دیا جاتا ہے، جیسے گوندھے ہوئے آٹے سےبال نکال کرپھینک دیا جاتاہے۔ ان خانہ ساز اُصولوں کی درانتی سے کام لینے والوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس سے ہمارے ایک فقہی جزیئے کا جواز تو مہیا ہوجائے گا لیکن اس کی زد شریعت کے کتنے ہی حرام کاموں پر پڑے گی اور اس ایک فقہی مسئلے کے اثبات سے کتنے ہی حرام کاموں کا جواز ثابت ہوجائے گا۔ دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سےکام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیان رہے! ۵۔مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ''شافعیہ کےمسلک (کہ حلالہ حرام ہے) پر حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ایک روایت سے بھی استدلال کیا گیا ہے: ((جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عُمَرَ فَسَأَلَهُ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا فَتَزَوَّجَهَا أَخٌ لَهُ عَنْ غَيْرِ مُؤَامَرَةٍ مِنْهُ لِيُحِلَّهَا لأَخِيهِ هَلْ تَحِلُّ لِلأَوَّلِ؟ قَالَ : لاَ إِلاَّ نِكَاحَ رَغْبَةٍ كُنَّا نَعُدُّ هَذَا سَفَاحًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم )) [1] اس روایت کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں ذکر کیا ہے او رصحیح علیٰ شرط الشیخین قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نےبھی اس پر سکوت کیا ہے۔اس استدلال کا کوئی جواب احقر کی نظر سے نہیں گزرا، البتہ اس کا یہ جواب سمجھ میں آتا ہےکہ قرآنِ کریم کی آیت: ﴿حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ﴾ میں مطلق نکاح کاذکر ہے خواہ شرط تحلیل کے ساتھ ہو یا بغیر شرطِ تحلیل کے، اس پر خبر واحد سے زیادتی نہیں کی جاسکتی۔''[2] تبصرہ: مولاناموصوف کےاس مفصّل پیرے پرتبصرے سے پہلے اُس حدیث کا ترجمہ ملاحظہ فرما لیں جس کا ترجمہ اُنہوں نے نہیں کیا، نیز روایت کی صحت مان لینے اوراس کا کوئی جواب نہ ہونے کے اعتراف کے باوجود، ایک خود ساختہ اُصول کی آڑ لے کر اس صحیح حدیث کو
[1] سنن الكبری از امام بیہقی:۷؍٢۰۸،مستدرک حاکم:۲؍١٩٩، قال الالبانی: صحیح الاسناد،الاِروا:۶؍٣٣١ [2] در سِ ترمذی:۳؍۴۰۰