کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 28
دوسرے حرام کو حرام ہی کیوں کر سمجھا جاسکتا ہے؟ ۴۔مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ''ان حضرات کا استدلال حدیث باب ((لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المحل والمحلل له)) سے ہے، لیکن اس کاجواب یہ ہے کہ اس روایت میں نہی عن التحلیل ہے، نفئ نکاح نہیں ہے اور نهي عن الأفعال الشرعية اصل فعل کی مشروعیت کا تقاضا کرتی ہے، كما تقرر في أصول الفقه. [1] تبصرہ : مولانا موصوف کے اس پیرے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ نکاحِ حلالہ کو ملعون قرار دے کر نکاح حلالہ سے روکنا مقصود ہے لیکن اس نهي(روکنے) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نکاح حلالہ منعقد ہی نہیں ہوگا کیونکہ نهي(ممانعت) اصل فعل کی مشروعیت کا تقاضا کرتی ہے۔ ہمیں اُصولِ فقہ میں مہارتِ کاملہ کا دعویٰ تو نہیں ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ موصوف کی یہ بات علیٰ الاطلاق درست نہیں، کیونکہ جمہور اُصولیین کے نزدیک افعالِ شرعیہ سے نہی، بالعموم منھی عنہ کے فساد پردلالت کرتی ہے۔بنابریں فساد، قرائن کی بنیاد پر بطلان کا باعث بھی ہو سکتا ہے اور ہمارے نزدیک مسئلۂ زیر بحث میں نہی بُطلان ہی کی متقاضی ہے۔اس کی تائید اس بات سے ہورہی ہے کہ جس سیاق میں اس خود ساختہ اُصول کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ نکاحِ حلالہ کا جواز مہیا کرنا ہے جب کہ خود موصوف کو بھی یہ تسلیم ہےکہ شریعت میں اس کی بابت نہی (ممانعت) بصورتِ لعنت وارد ہے، اس کے باوجود وہ ایک خانہ ساز فقہی اُصول کے حوالے سے اسے اصل کے اعتبار سے مشروع (جائز) قرار دے رہے ہیں۔بنا بریں ہم نے جو سمجھا ہے،وہ یقیناً صحیح ہے۔ اس اعتبار سے یہ فقہی اصول بھی ان خود ساختہ اُصولوں میں سے ایک ہے جو نہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت ہے اور نہ صاحبَین (قاضی ابویوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ ) سے بلکہ جب تقلیدی جمود میں شدت آئی تو خود ساختہ فقہی مسائل سے متصادم صحیح احادیث کوترک کرنے کے لئے یہ اُصول وضع کئے گئے ہیں۔ان اُصولوں کے ذریعے سے ہر صحیح حدیث کو، جسے احادیث کے نقد و تحقیق کے
[1] درسِ ترمذی:۳؍۳۹۹