کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 27
اگران میں سے کوئی ملعون کام حلال نہیں ہوسکتا تو حلالہ کیوں کر جائز ہوسکتا ہے؟ حلالۂ ملعونہ کو کون سے سُرخاب کے پَر لگے ہوئے ہیں کہ اس کو ملعون کے بجائے ماجور (قابل اجر) مان لیا جائے؟ آخر دوسرے ملعون کام او رحلالۂ ملعونہ میں کیا فرق ہے جس کی بنیاد پر ایک تو حلال ہوجائے اور دوسرے حرام کے حرام ہی رہیں؟ ﴿هاتوا بُر‌هٰنَكُم إِن كُنتُم صٰدِقينَ﴾[1] ۳۔مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ''پھر نکاح بشرط التحلیل امام شافعی رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک متحقق ہی نہیں ہوتا اور نہ اس سے عورت زوجِ اوّل کے لئے حلال ہوتی ہے جب کہ ہمارے (احناف) کے نزدیک ایسا کرنا اگرچہ حرام ہےلیکن اگر کوئی شخص اس کا ارتکاب کرلے گا تو نکاح منعقد ہوجائے گا اور عورت زوجِ اوّل کے لئے حلال ہوجائے گی۔''[2] تبصرہ: یہ منطق بھی ناقابل فہم ہے کہ حلالہ اگرچہ حرام ہے،لیکن اس کے ارتکاب سے نکاح منعقد ہوجائے گا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حرام کام بوقتِ ضرورت کرنے جائز ہیں اور اس کے ارتکاب سے وہ سارے مقاصد بھی حاصل ہوجائیں گے جو حلال کام کے ذریعے سے حاصل ہوتے ہیں،پھر حلال و حرام کے درمیان کوئی فرق تو نہ رہا۔ایک شخص کسی کا مال حرام طریقے (چوری، ڈاکے، غصب وغیرہ) سے حاصل کرلے، تو یہ فعل توحرام ہےلیکن یہ حاصل شدہ مال اسی طرح جائز ہے جس طرح حلال طریقے سے حاصل کردہ مال ہوتا ہے اور اس غاصب، چور اور ڈاکو کے لئے اس مال کا استعمال بالکل حلال طریقے سے حاصل کردہ مال ہی کی طرح جائز ہوگا؟ اسی طرح اگر ایک کام حرام ہونے کے باوجود جائز ہوسکتا ہے تو پھر شیعوں کا نکاحِ متعہ بھی حلال ہونا چاہیے۔اس کو حرام او رناجائز کیوں کہا جاتا ہے؟ یا پھر ان دونوں حراموں کے درمیان فرق بتلایا جائے کہ نکاحِ حلالہ حرام ہونے کے باوجود اس لئے حلال ہے بلکہ باعثِ اجر ہے اور نکاحِ متعہ اس لئے حلال نہیں ہے۔اس فرق کی وضاحت کے بغیر ایک حرام کو حلال اور
[1] البقرة:۱۱۱ [2] درسِ ترمذی:۳؍۳۹۹