کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 25
ہے اور تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ہم (احناف) یہ کہتے ہیں کہ تخصیص تو آپ نے بھی کی ہے، وہ اس طرح کہ حدیث ِ باب کے اطلاق کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر نکاح نہ بشرط التحلیل ہو او رنہ بنیۃ التحلیل ہو، پھر بھی اگر زوجِ ثانی طلاق دے کر اس کو زوجِ اوّل کے لئے حلال کردے تو بھی ناجائز ہو کیونکہ محلل کا لفظ اس پر بھی صادق آتا ہے حالانکہ ایسا شخص کسی کے نزدیک بھی ملعون نہیں۔'' تبصرہ: یہ ساری گفتگو محض اپنی بات کو جائز قرار دینے کے لیے ہے،نیز خلافِ حقیقت ہے۔یہ دعویٰ کہ ''ایسا شخص کسی کے نزدیک بھی ملعون نہیں'' یکسر غلط ہے۔جب ایسا شخص زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی رُو سے ملعون ہے تو اس کے ملعون ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے؟ علاوہ ازیں کوئی اور اسے ملعون کہے یا نہ کہے، جب رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ملعون قرار دے رہے ہیں تو اس کے بعد بھی اس کے ملعون ہونےکے لئے کسی ہما شما کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ملعون قرار دینا اس کے ملعون ہونے کے لئے کافی نہیں ہے؟ ثانیاً: جو نکاح بشرط التحلیل ہو اور نہ بہ نیتِ تحلیل، وہ تو بالاتفاق صحیح نکاح ہے، اس طرح نکاح کرنے والا خوامخواہ طلاق کیوں دے گا؟ ہاں اس کا نباہ نہ ہو سکے اور وہ طلاق دینے پر مجبور ہو جائے تو بات اور ہے اور اس صورت میں اس عورت کا نکاح دوبارہ زوجِ اوّل کے ساتھ بھی جائز ہو گا، لیکن اس صورت کو ''زوجِ ثانی طلاق دے کر زوجِ اول کے لیے حلال کر دے۔'' سے کس طرح تعبیر کیا جا سکتا ہے؟جبکہ واقعات کی دنیا میں اس طرح ممکن ہی نہیں ہے۔ایسا تو تب ہی ممکن ہے جب نکاح بہ شرطِ تحلیل ہو یا بہ نیتِ تحلیل۔اگر یہ ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں ہو گی تو عدم آہنگی کی صورت میں طلاق ہو سکتی ہے، ورنہ نہیں اور اس صورت کو 'طلاق دےکر زوجِ اوّل کے لیے حلال کر دے'سے تعبیر کرنا مغالطہ انگیزی کے سوا کچھ نہیں۔ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے، دونوں پر لعنت فرمائی ہے، یعنی یہ دونوں ملعون ہیں۔اسی طرح رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بھی بہت سےکام کرنے والوں پرلعنت فرمائی ہے، یعنی وہ سب ملعون ہیں۔جیسے :