کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 24
ہوگا۔''[1] تبصرہ: حالانکہ مشہور حدیث ہے: ((إنما الأعمال بالنيات)) [2] (عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے)۔علاوہ ازیں نیت کا تعلق بھی صرف حلال کاموں سے ہے۔حرام کام کرتے وقت نیت کتنی بھی اچھی ہو، وہ حلال نہیں ہوگا، اس پر کوئی اجر نہیں ملے گا۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایک حرام کام کرتے وقت زبان سے اس کو حلال کرنے کا اظہار نہ ہو۔لیکن اگر دل میں اس کو حلال سمجھتے ہوئے وہ کام کرے گا تو نہ وہ حلال ہوگا او رنہ اس پر اجرملے گا بلکہ ہوسکتا ہے وہ ڈبل جرم کا مرتکب سمجھا جائے، ایک، حرام کو اختیار کرنے کا؛ دوسرا، حرام کو حلال سمجھنے کا بلکہ ایک تیسرا جرم، کسی دوسرے کے لئے حرام کو حلال کرنے کا۔پھر یہ کون سا اُصول ہے کہ زبان سے تو تحلیل کا نہ کہے لیکن دل میں تحلیل کی نیت کرلے تو وہ جائز بلکہ قابل اجر ہوجائے گا؟ اس فقہی حیلے کی رُو سے تو ہر حرام کام حلال اورجائز قرار پاجائے گا۔مثلاً ایک چور اس نیت سےچوری کرے، ایک ڈاکو اس نیت سے ڈاکہ ڈالے کہ میں اس رقم کو غریبوں پر خرچ کروں گا۔اسی طرح کوئی شخص سود بھی غریبوں پر اور رشوت بھی غریبوں پر خرچ کرنے کی نیت سے لے تو کیا ایسی نیت کرلینے سے مذکورہ حرام کام نہ صرف جائز بلکہ باعثِ اجر ہوجائیں گے؟ اگر ایسا نہیں ہے اوریقیناً ایسا نہیں ہے کہ حُسن نیت سے کوئی حرام کام بھی جائز ہوسکتا ہے تو پھر حلالہ جیسا حرام اور لعنتی فعل محض ا س نیت سے کہ میرے اس حرام کام سے دوسرے شخص کا اس عورت سے دوبارہ نکاح کرنا جائز ہوجائے گا اور ایک دوسرےبھائی کا بھلا ہوجائے گا۔کیسے حلال اور جائز بلکہ ماجور کام قرار پاجائے گا؟ ۲۔مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ''امام احمد کے نزدیک یہ صورت بھی (بہ نیتِ تحلیل عارضی نکاح) ناجائز اور باطل ہے، وہ حدیث ِباب کے اطلاق سے استدلال کرتے ہیں کہ اس میں محلل پر مطلقاً لعنت کی گئی
[1] درسِ ترمذی از مولانا محمد تقی عثمانی:۳؍۳۹۸ [2] صحیح بخاری:حدیث نمبر۱