کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 23
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے موقِف کے برعکس فقہاءاحناف کا مسلک
رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان اور آثارِ صحابہ کی رُو سے تو یہ غیر شرعی فعل ممنوع ہے ليكن فقہائے احناف اور موجودہ علمائے احناف کے نزدیک نہ صرف جائز ہے،بلکہ ان کے نزدیک (نعوذبالله) یہ باعثِ اجر کام ہے۔إنا للّٰه وإنا إليه راجعون
ہمارے نزدیک یہ موقف بھی شریعتِ اسلامیہ کے مقابلے میں تفویض طلاق ہی کی طرح ایک نئی شریعت سازی ہے۔اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
اب تک تو ہم سنتے ہی آئے تھے کہ علماے احناف حلالے کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں،لیکن یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ موجودہ علماے احناف میں ایک نہایت برسرآوردہ عالم مولانا تقی عثمانی صاحب ہیں۔جن کو ان کے عقیدت مند'شیخ الاسلام'کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔جن کا اس دور میں اہم تعارف یہ بھی ہےکہ'میزان بنک' کے نام سے جو بنک قائم ہوا ہے، اس کو غیر سودی بنک قرار دے کر اُنہوں سودی طریقوں کو سندِ جواز مہیا کی ہے، جبکہ جید و مستند علما کی اکثریت بنکوں کے اس سارے عمل کو ناجائز اور سودی ہی قرار دیتی ہے۔مگر اُنہوں نے سود کو حلال کرنے کے لئے درجنوں فقہی حیلے اختیار کئے ہیں، گویا اس کام میں مولانا عثمانی صاحب کو خصوصی مہارت حاصل ہے۔
اس فقہی مہارت کے ذریعے سے اُنہوں نے حلالہ جیسےممنوع فعل کے جواز میں بھی سات دلائل مہیا کیے ہیں جو ان کی'درسِ ترمذی' نامی کتاب کی زینت ہیں۔ہم مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر ان دلائلِ سبعہ کا مختصراً جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ہم ترتیب وار ان پر گفتگو کریں گے، پہلے مولانا موصوف کی عبارت اور پھر تبصرہ کے عنوان سے اس پر نقد ہوگا۔وَبِید اللّٰہ التوفیق!
۱۔مولانا عثمانی صاحب حدیث ((لعن اللّٰہ المحل والمحلل له)) کی شرح میں فرماتے ہیں:
''ا س حدیث کی بنا پر نکاح بشرط التحلیل بالاتفاق ناجائز ہے،البتہ اگر عقد میں تحلیل کی شرط نہ لگائی گئی ہو، لیکن دل میں یہ نیت ہو کہ کچھ دن اپنے پاس رکھ کر چھوڑ دوں گا تو حنفیہ کے نزدیک یہ صورت جائز ہے، بلکہ امام ابوثور رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ایسا کرنے والا ماجور