کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 21
۲۔بلکہ ایک دوسری حدیث میں حلالہ کرنے والے شخص کے لیے ((التيسُ المستعارُ)) (کرائے کا سانڈ) جیسےکریہہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔[1]
اور قرآن یا حدیث میں اس قسم کے الفاظ کہ یہ کام باعثِ لعنت ہے، یا رِجس (ناپاک)ہے، شیطانی عمل ہے وغیرہ، جیسے الفاظ سے مقصود ان کاموں کی حرمت و ممانعت ہوتی ہے،جیسے شراب کو 'رِجس' اور 'شیطانی عمل' کہا گیا ہے، فضول خرچی کرنے والوں کو 'شیاطین کا بھائی' کہا، جھوٹوں پر اللّٰہ کی لعنت ہے، ظالموں پر اللّٰہ کی لعنت ہے وغیرہ وغیرہ۔ان کامطلب یہی ہے کہ یہ افعال ممنوع اورحرام ہیں اور ان کے مرتکبین ملعون ہیں، اپنے لیے کیے جائیں یاکسی دوسرے کی خاطر۔یہ نہیں ہوسکتا کہ جو حرام کام اپنے لیے ممنوع ہو، وہ کسی دوسرے شخص کی خاطر کرنےکی وجہ سے جائز ہوجائے۔علاوہ ازیں حرام کام حسنِ نیت سے حلال نہیں ہوجائے گا، وہ حرام ہی رہے گا، الا یہ کہ کسی نصّ شرعی سے کوئی استثنا ثابت ہو۔
مروّجہ حلالے کو بھی شریعت میں لعنت کا باعث قرار دیا گیا ہے اور اس کی بابت کسی قسم کا استثنا بھی ثابت نہیں ہے۔رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا اقتضا یہ ہے کہ ایسا مشروط نکاح یعنی حلالہ یا حلالے کی نیت سے کیا گیا نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا،بلکہ یہ زِنا کاری شمار ہوگا او راس زنا کاری سے وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی۔
آثارِ صحابہ
۳۔صحابۂ کرام نے بجاطور پر ان فرامین رسول کا یہی مطلب سمجھا۔چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((لا أُوتى بِمُحَلِّلٍ وَلا بِمُحَلَّلَةٍ إِلا رَجَمْتُهُمَا)) [2]
''میرے پاس جو بھی حلالہ کرنے والا مرد اور وہ عورت جس کے ساتھ حلالہ کیا گیا، لائے جائیں گے تو میں دونوں کو سنگسار کردوں گا۔'' یعنی زنا کاری کی سزا دوں گا۔
۴۔حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو مطلقہ عورت سے اس کے
[1] سنن ابن ماجہ:۱۹۳۶
[2] مصنف عبدالرزاق، باب التحلیل:۶؍۲۶۵