کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 20
تحقیق وتنقید
مولانا صلاح الدین یوسف
حلالۂ ملعونہ مروّجہ کا قرآنِ کریم سے جواز؟
تفویضِ طلاق کے مسئلے میں جس طرح فقہاے احناف کا مسلک قرآن وسنت کے مطابق نہیں ہے جس کی ضروری تفصیل محدث کے شمارہ نمبر ۳۶۱ اور ۳۶۲ میں بیان ہوچکی ہے، اسی طرح اُنہوں نے مروّجہ حلالے کوبھی نہ صرف جائز بلکہ اسے باعثِ اجروثواب قرار دے کر شریعت کے ایک اور نہایت اہم حکم سےانحراف کیا ہے، یا بہ الفاظِ دیگر تفویض طلاق کی طرح شریعت کا خود ساختہ نظام تشکیل دیا ہے۔
شریعتِ اسلامیہ میں جس عورت کو طلاقِ بتّہ (الگ الگ تین مواقع پر تین طلاقیں یا احناف کے نزدیک بیک وقت ہی تین طلاقیں)مل گئی ہو، اس کے لیے حکم ہے کہ اس کے بعد وہ پہلے خاوند سے دوبارہ اس وقت تک نکاح نہیں کرسکتی جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے باقاعدہ نکاح نہ کرلے اور اس کے پاس ہی نہ رہے، پھر اگر اتفاق سے ان کے درمیان نباہ نہ ہوسکے اور وہ بھی طلاق دے دے یا فوت ہوجائے تو عدت گزارنے کے بعد وہ پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے۔
لیکن طلاق بَتہ مل جانے کے بعد پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے یہ حیلہ اختیا رکرنا کہ کسی مرد سے مشروط نکاح کرکے ایک دو راتیں اُس کے پاس گزار کر طلاق حاصل کرلینا او رپھر پہلے خاوند سےنکاح کرلینا، اس حیلے کی اسلام میں بالکل اجازت نہیں ہے۔
۱۔اسے رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نےغیر شرعی فعل قرار دیا ہے اور حلالہ کرنے والے اور جس کےلئے حلالہ کیا جائے، دونوں پر لعنت فرمائی ہے : ((لعنَ اللّٰہُ المحلِّ والمحلَّلَ له)) [1]
[1] سنن ترمذی:۱۱۱۹