کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 18
کوئی ضرورت نہیں کہ طالبان کے تکفیری فکر کو نمایاں کیا جائے اور بعض حلقوں کو اس سے متہم کرکے ان کے خلاف جارحیت کو جواز دیا جائے۔اس تناظر میں، اختلاف کی سمت جانے والا ہر قدم چاہے وہ قول وزبان سے ہو یعنی تکفیر وخروج اور طالبان کے استدلال کی حمایت کرکے یا عمل سے یعنی بم دھماکے اور جارحیت، دونوں شرعی احکام اور اسلامی مصلحت کے سراسر منافی ہیں۔ملک وملت کا مفاد صرف اور صرف صلح وصفائی میں ہے اور اس بے نام جنگ سے نکلنے میں ہے۔اسی پر پاکستانی قوم کا 'سیاسی اجماع' بھی ہوچکاہے، جس کےخلاف حالات پیدا کرکے، دوبارہ جنگ کا آغاز کیا جارہا ہے، خدارا قتل وغارت کے اس ظالمانہ سلسلے کو بند کیا جائے اور پاکستان کو اَمن کے راستے پر ڈالا جائے۔نواز حکومت مذاکرات کی پرزور داعی رہی ہے، یہی اس کا مینڈیٹ ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ انہیں بھی عالمی سیاست کا شکار کرکے، پاکستانی قوم کو نہ ختم ہونے والی جنگ میں دھکیلا جارہا ہے۔نواز حکومت اپنے اصولی موقف سے ہٹ رہی ہے۔یہ اسلام اور پاکستان، دونوں کے تقاضوں اورآل پارٹیز کانفرنس کے مینڈیٹ کے منافی ہے۔حکومت اور طالبان دونوں کو آخرکار اعتدال ومفاہمت کا مظاہرہ کرنا،تشدد کا خاتمہ کرنا اور صلح ومذاکرات کا راستہ اختیارکرنا ہوگا۔نہ تو حکیم اللّٰہ محسود کو حکومت نے قتل کروایا ہے اور نہ ہی بم دھماکوں کے مجرم مصدقہ طور پر طالبان قرار پاچکے ہیں۔البتہ دونوں طرف بہت سی غلطیاں موجود ہیں جن میں باہمی مفاہمت واعتماد ہی تدریجاًکمی لاسکتی ہے۔یہ راستہ مشکل ضرورہے، لیکن اس کا انجام امن واستحکام ہوگا۔جب پاکستان کی موجودہ حکومت امریکہ کی شروع کردہ جنگ کی حامی نہیں ہے، اللّٰہ کی شریعت اور اس کے شعائر کے بارے میں اس کا رویہ بھی استہزا پر مبنی نہیں ہے، وہ امریکہ کی ایجنٹ اور فرنٹ لائن سٹیٹ بننے کی بجائےمتبادل طرزِ سیاست کی حامی ہے،اور یہی اس کی قوت اور محل اعتماد ہے، تو اس اہم ترین حیثیت سے دستبردار ہوکر، مشرف کی آمرانہ حکومت جیسے اقدامات سے بھی گریز کرنا ہوگا اور دوسری طرف اس 'ورلڈ گریٹ گیم' کو پہچانتے ہوئے طالبان نمائندوں کو بھی معاہدات کی طرف ہی پیش قدمی کرنا ہوگی۔جس قدر جلد اُنہیں اس کا شعور ہوجائے، اتنا ہی بہتر ہے۔وما علینا إلا البلاغ