کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 17
جواب دینے والے امریکی ایجنڈے اور لابنگ کا شکار ہوئے اور اکثر وبیشترغیرملکی دہشت گردوں کی بہیمانہ کاروائیوں کو میڈیا کے ذریعے طالبان کے کھاتے میں ڈال کرمسلمانوں میں باہمی قتل ومنافرت کو فروغ دیا گیا اور اسلام کوبدنام کیا گیا۔
پاکستان میں بعض لوگ طالبان کے موقف کو پرزور طریقے سے پیش کررہے ہیں اور بعض لوگ حکومت کے استدلال کو... ان دونوں کو پیش کرنا اور ان کی صحت پر اصرار کرنا لڑائی اور افتراق کو پانی دینے اور اُس کو جواز بخشنے کی تدبیر ہیں۔اُمّتِ مسلمہ میں جنگ وجدل کو پروان چڑھانے والا ہرراستہ غلط او رناروا ہے۔واضح رہے کہ حکومت کے خلاف کاروائیاں کرنا، ان کو کافر قرار دینا، سرکاری عہدیداران اور عوام کے جان ومال کو اُن کا معاون سمجھتے ہوئے مباح سمجھنے کا موقف طالبان کی اکثریت کا نہیں بلکہ اُن میں چند ایک انتہاپسند گروہوں کا ہے۔نامور افغان مجاہدشیخ عبد اللّٰہ عزام شہید،طالبان کے مرکزی قائد اور سابقہ امیر امارتِ اسلامیہ افغانستان ملا عمر،سوات میں تحریک نفاذ شریعت محمدی کے قائد صوفی محمد جیسے سرکردہ طالبان نے کبھی اس موقف کو اختیار نہیں کیا اور نہ کبھی اُنہوں نے تکفیر کا سہارا لیا۔طالبان کی مرکزی درسگاہ جامعہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک کو سمجھاجاتا ہے، اور سب جانتے ہیں کہ اس درسگاہ نے کبھی تکفیری موقف نہ تو اختیار کیا ہے اور نہ ہی اپنےلٹریچر میں اس کو پیش کیا ہے بلکہ اس کے سربراہ مولانا عبد الحق رحمہ اللہ اور ان کے بیٹے مولانا سمیع الحق پاکستان میں دستوری جدوجہد اور شریعت بل وغیرہ کے حوالے سے معروف ہیں۔جہاں تک خروج کی بات ہے تو خروج کا عملاً کہیں سے دعویٰ بھی موجود نہیں ہے اور نہ عملاً خروج کہیں ہوا ہے، کیوں کہ خروج تو اسلامی ریاست یعنی خلافت کے مقابلے میں ہوتا ہے اور پاکستان میں تو جمہوریت ہے اور یہاں خروج کی بجائے بغاوت اور اس سے نمٹنے کا پورا نظام مثلاً آرٹیکل نمبر۶ وغیرہ میں موجود ہے۔
طالبان میں تکفیر وتفجیر (حکام وعوام کو کافر قرار دیکر، اُن کے قتل کو جائز سمجھنا اور بم دھماکے کرنا)کے داعی گروہ بہت مختصر ہیں اور اکثریت کا یہ موقف نہیں، لیکن امریکی لابی عرصہ دراز سے اُنہیں تکفیر کے بلاامتیاز مجرم قرار دے کر تکفیر وخروج کی مذمت میں کانفرنسیں کراتی آرہی ہے۔ظاہر ہے کہ سیکولر این جی اوز کو ایسے شرعی استدلال کو پھیلانے اور پروان چڑھانے کی اس کے سوا