کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 16
محسود کی ہلاکت نے اس امریکی ہدف کو بالکل اظہر من الشّمس کردیا ہے۔
اس کے بعد سے پاکستان میں قتل وغارت کا سلسلہ بہت بڑھ گیا ہے۔ڈرون حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والے تو دنیا بھر کے نزدیک مسلّمہ مظلوم ہیں اور ان کا قاتل بھی واضح ہے جو امریکہ ہے۔مقتول بھی مسلمان ہیں اور ان میں شہید ہونے والوں کی اکثریت ان بچوں،عورتوں اور ایسے مردوں کی ہے جو اس جنگ کا کسی طرح حصہ نہیں۔دوسری طرف پاکستان بھر میں ہونے والے بم دھماکوں کے شکار بھی معصوم ومظلوم پاکستانی مسلمان ہیں لیکن اُن کے قاتل بے نام ہیں۔میڈیا اور اس پر پیش کئے جانے والے بے نام پیغامات کی رو سے یہ لوگ طالبان ہیں جبکہ بہت سے حقائق اور رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں غیر ملکی دہشت گرد عناصر بڑی تعداد میں دندناتے پھررہے ہیں۔بعض بڑے واقعات مثلاً پشاور میں سینٹ جوزف گرجا اورتبلیغی مرکز میں بم دھماکوں کا طالبان پر الزام نہیں دیا جاسکتا۔جنرل نیازی والے بم دھماکے اور اپنے صوبائی وزیر کی ہلاکت کے معاملہ میں عمران خاں نے طالبان کو بطورِ مجرم نامزد نہیں کیا۔قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمٰن پر ہونے والے بم دھماکے بھی طالبان کے کھاتے میں نہیں ڈالے جاسکتے۔گویا پاکستان میں ہونے والے بم دھماکوں کا نشانہ بننےوالے تو معصوم ومظلوم اور پرامن مسلمان ہیں لیکن ان کا قاتل بے نام اور اَن گنت ہیں جن کی تفتیش نہ تو کبھی مکمل ہوئی اور نہ اُنہیں سزا کا مرحلہ پیش آسکا ہے۔حکومتیں بھی اس لئے طالبان کے ذمّے لگانے پر خاموش رہتی ہیں کہ ان پر امن وامان قائم کرنے کی ذمہ داری ختم ہوتی ہے، جبکہ اسطرح وہ ایک دائمی جنگ اورورلڈ گریٹ گیم کا شکارہوجاتی ہیں۔
امریکہ کے حکیم اللّٰہ محسود کو مارنے کے شدید ترین اقدام کے بعد، یہ امربہت قرین قیاس ہے کہ پاکستان میں جنگ وجدل کو جواز دینے کے لئے ان میں سے اکثر دہشت گردں کا تعلق بھی امریکہ یا شیطانی اتحادِ ثلاثہ سے ہی ہو، کیونکہ ان کا منطقی نتیجہ مذاکرات کا خاتمہ اور جارحیت کا آغاز ہے جو امریکہ کا ایجنڈا ہے۔اور ماضی میں بھی پاکستان میں ہمیشہ اس طرح تشدد وجارحیت پروان چڑھتی رہی۔ڈرون حملے اور امریکی جارحیت اس ظلم نامے کا آغاز بنتے رہے، پھر کبھی