کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 15
مزین نظر آتے ہیں۔اُنہیں ماضی میں اسی لئے نشانہ بنایا گیا کہ وہ اسلامی تقاضوں کی پاسداری کرتے ہوئے، افغانی مسلمانوں کی مدد کے شرعی فریضہ کو پورا کرنا چاہتے تھے۔ان کی نظریاتی واعتقادی پختگی ملتِ اسلامیہ کا اثاثہ ہے۔عالمی ظالم ریاست امریکہ، جس سے اُس کے شہری سب سے زیادہ خائف ہیں کہ اس سے عالمی امن کو سب سے زیادہ خطرہ ہے، کہ ڈرون حملوں اوراس کی جنگ میں پڑ کرہم نے پاکستان کے بازوے شمشیر زَن کوبھی ایسے اقدامات کرنے پر مجبور کردیا جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔جن اقدامات کو طالبان کے نام سے میڈیا میں پھیلایا جاتا ہے، شریعت اسلامیہ میں اس کا کوئی جواز نہیں۔تاہم اسلام، قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ سب سے گہرا رشتہ ہے۔اسی رشتے سے عرب کے منتشرومتحارب قبائل متحد ہوکر، خلافت ِراشدہ میں عالمی عسکری طاقت اور مثالی اسلامی ریاست بنے تھے۔مسلمانوں کو اسی رشتے کا پاسبان اور محافظ ہونا چاہئے جو نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمّتی اور محب ہونے کے ناطے تمام ملتِ اسلامیہ میں روح کی طرف جاوداں اور متحرک جذبہ ہے۔ان مسائل کا حل صرف اور صرف پاکستان کے قومی اورپھر ملت ِاسلامیہ کے عالمی اتحاد میں ہے۔انتہاپسندی اور شدت پسندی کے بجائے اسلام توازن واعتدال کا دین ہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میانہ روی کو 'خیر الاُمور' قرار دیا ہے۔
مسلمانوں کےمابین جاری اختلافات کو صلح وصفائی سے حل کرنے کا قرآن کریم ہمیں حکم دیتا ہے کہ اگر مؤمنوں کی دونوں جماعتیں لڑائی کا شکار ہوجائیں تو ان میں صلح[1]کرواؤ۔ملت اسلامیہ بالخصوص پاکستان میں جنگ وجدل اورافتراق وانتشارکفار کی مسلّمہ سازش اور محکم تدبیر ہےجس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ امریکہ نے معاہدات کے موقع پر ہمیشہ صلح جو شخصیات کو ہلاک کرنے میں دیر نہیں کی۔خود وہ افغانستان میں صلح ومعاہدہ کی پالیسی پر کاربند ہے اور پاکستان میں جنگ و افتراق اس کا ہدف ومقصد ہے۔ڈرون حملے کےذریعے حکیم اللّٰہ
[1] ﴿وَإِن طائِفَتانِ مِنَ المُؤمِنينَ اقتَتَلوا فَأَصلِحوا بَينَهُما﴾ (الحجرات: ٩)
''اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی کا شکار ہوجائیں تو دونوں میں صلح کرادیا کرو۔''