کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 14
جیسے دعوے کرنے مشکل ہوگئے ہیں۔جہاں تک عوام الناس کی بات ہے جنہیں ماضی میں امریکہ نواز اور خاموش تماشائی قرار دے کر، ان کے خلاف طالبان قیادت غم وغصہ کا اظہار کرتی آئی ہے تو عوام کی نمائندہ ایک بڑی جماعت تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی تو براہ راست نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے خلاف میدانِ عمل میں نکلے ہوئے ہیں۔جبکہ تمام سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں طالبان سے مذاکرات پر زور دیا ہے۔اندریں حالات آہستہ روی سے یہ سنگین مسائل، منطقی حل کی طرف جارہے ہیں۔بین الاقوامی سطح پر بھی نواز حکومت نے سعودی عرب، ترکی، امارات اور افغانستان کی حکومتوں میں باہمی اعتماد پرور اقدامات کرکے، متوازی بلاک کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے جو بڑی اہم اور مغربی ممالک کی ریشہ دوانیوں کا اصل حل ہے۔انہی حالات میں بعض قوتیں، ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے، کسی طرح اصلاح احوال پر گامزن پاکستان کی منزل کو دور کرنے پر تلی بیٹھی ہیں، جنہیں بصیرت سے حل کرنا ہوگا۔اب حال ہی میں ان فسادات میں طالبان کے نام پر بم دھماکوں کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔
اندریں حالات پاکستان میں جو شخص یا ادارہ قوم کو تکفیر وخروج کی بحثوں میں ڈالنا چاہتا ہے،یا طالبان کی طرف سے دہشت گردانہ کاروائیوں کے جواز کی بحث میں اُلجھتاہے تو وہ دراصل وہ مفاہمت کے عمل کو متاثر کرکے، دیرینہ دوطرفہ شرعی اور سیاسی مخاصمت کی بنیادوں کو پختہ کرنے جارہا ہے۔یہ وقت کسی ایک فریق کے موقف کی تائید اور اس کے جواز فراہم کرنے کا نہیں بلکہ اس وقت صرف ایک ہی کام ہے اور وہ ہے مذاکرات ومفاہمت اور دونوں اقدامی ودفاعی طرز ہائے فکر سے قوم کو باہر نکالنا۔جس طرح امریکہ اس خطے سے باہر نکلنے جارہا ہے، اس سے پہلے پاکستان کو بھی اس دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے المیہ سے نکلنا ہوگا جو اس کا اپنا مسئلہ نہیں تھا لیکن اس کا سنگین ترین مسئلہ بنا دیا گیا۔امریکہ اس وقت چاہتا ہے کہ معاہدات کا راستہ کسی صورت کھلنے نہ پائے اور اس خطے میں مسلمان اسی طرح لڑتے رہیں جیسی لڑائی وہ مشرقِ وسطیٰ کے عراق وشام میں شروع کر اچکا ہے۔اور اہل اسلام واہل پاکستان کی حکمتِ عملی یہ ہونی چاہئے کہ کسی بھی قیمت پر قوم کو آپس میں متحد کرلیا جائے۔
طالبان حلقوں کو دیکھا جائے تو وہ شریعت پر عمل پیرا، دین کے خادم اور سنّتِ نبوی سے