کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 13
کرکے آہستہ آہستہ طالبان کی طاقت کو سکیڑا جارہا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں مزاحمت کرنے والوں کا شرعی موقف بھی اپنی اساس کھوتا جارہا ہے۔مجاہدین کا موقف یہ ہے کہ وہ 'شریعت الٰہیہ کے نفاذ' اور کفار سے دوستی وتعاون کی بناپر پاکستانی حکومت، اس کے سیاسی اداروں اور عوام کے خلاف ہیں۔۱۴برس کے بعد پاکستان میں حکومت بھی تبدیل ہوچکی ہے۔پرویز مشرف کے بعد آنے والی زرداری حکومت تو این آر او، سیاسی منظرنامے اور اپنےفکری رجحانات کے باعث مشرف پالیسیوں کا ہی ایک تسلسل تھی، جس کا اظہار رحمٰن ملک جیسے لوگوں کا برسراقتدار رہنا تھا جو مشرف کا قریبی دوست اور طالبان کا بدترین مخالف تھا، اس دور میں اگر کوئی بلّی بھی مرجاتی تو رحمن ملک اس کا الزام بلا تامل طالبان کے ذمے جڑ دیا کرتا۔لیکن اب الیکشن ۲۰۱۳ء کے بعد سیاسی صورتحال میں کافی تبدیلی آچکی ہے۔امریکہ کی ایجنٹ ریاست کے کردار کو آہستہ آہستہ کم کیا جارہا ہے یا کم ازکم دعوے جار ی ہیں۔نیٹو سپلائی کا مسئلہ دو ماہ سے بند اوراُلجھنوں کا شکار ہے اور امریکہ کے ساتھ 'کولیشن سپورٹ فنڈ' یا 'فرنٹ لائن سٹیٹ' کا کردار بھی کم ہوتا جارہا ہے۔امریکہ کے بارے میں یہ حساسیت، فوج کے علاوہ حکومتی اداروں میں بھی پائی جاتی ہے۔وزراتِ داخلہ اس بارے میں بہت سے اقدامات کرتی جارہی ہے، تاہم امریکہ نوازی کا یہ سلسلہ ابھی تک میڈیا میں جاری وساری ہےجو 'شہید' کا ایک لفظ بول دینے پر آسمان سرپراُٹھا لیتا ہے۔مشرف دور میں اس میڈیا کو بہت خودسر کردیا گیا ہے جو حکومت وفوج سے زیادہ ریاست کا محافظ بنا بیٹھا ہے جبکہ میڈیا سے منسلک بہت سے افراد کی سیکرٹ فنڈز سے رقوم کی وصولی کو سپریم کورٹ نے ماضی قریب میں برسرعام [1]بھی کردیا ہے۔جہاں تک اللّٰہ کی شریعت کے نفاذ کی بات ہے تو اس سمت تو کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی اور نہ بظاہر اس کے امکانات نظر آتے ہیں لیکن ماضی کے بالمقابل شریعت کے بارے میں تمسخر واستہزا کا رویہ موجودہ حکمرانوں کا نہیں۔یہ صورتحال بھی کوئی خوش آئند تو نہیں تاہم اس بنا پر حکومت کی تکفیر کے نظریے میں کمزوری آتی ہے کیونکہ بعض طالبان گروہوں کے لئے ایسے حکمرانوں کوکافر قرار دینے اور ان کے خلاف جہاد کی فرضیت
[1] دیکھیے سپریم کورٹ کی درخواست پر وزرات اطلاعات کی سیکرٹ فنڈ لسٹ مجریہ ۲۳؍اپریل ۲۰۱۳ء