کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 12
بجائے، اُن کو وہاں سے منتشر کردیا ہے اور یہ لوگ اس سے محتاط ومحفوظ علاقوں کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔اُن کو سختی سے دبانے سے مسئلہ ختم ہونے کی بجائے جوابی تشدد وجارحیت کی طرف مُڑ گیا۔تحریکِ طالبان کا موجودہ امیر مولانا فضل اللہ سوات کا ہی باسی ہے۔پاک افغان سرحد پر قبائلی علاقوں میں پاکستان کی حکومتی رِٹ مکمل طو رپر قائم نہیں بلکہ بہت سے ایسے مقامات بھی ہیں جہاں ابھی تک نہ کسی ریاست کی حکومت ہے اور نہ کسی کی کرنسی چلتی ہے۔اس پہاڑی سلسلے میں ایسے بہت سے مقامات کسی بھی حکومت کی عمل داری سے کلیتاً باہر ہیں۔
۲۰۱۴ء کے آغا ز میں پاکستان کی عملی صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف حکومت درپردہ نئی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہوچکی ہے۔تو دوسری طرف طالبان کا مطالبہ بھی شرعی وسیاسی بنیادوں پر اپنی اساس کھو چکا ہے۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پاکستانی فوج میں جنر ل کیانی کی سبک دوشی کے بعد،متبادل رجحان سامنے آنے کی توقعات کی جارہی ہیں۔لاپتہ افراد کا مقدمہ ایک طرف سنگین حدوں کو چھو رہا ہے اور عدلیہ آئے روز اس پر اپنے انسانی بنیادی حقوق اور آئین کی پاسداری کے مطالبے کو پرزور کر تی جارہی ہے۔لیکن دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں ایک ذومعنی مفاہمت نظر آرہی ہے۔اور وہ یہ کہ براہِ راست آپریشن کی بجائے، ان افراد کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کررکھا ہے جو کسی نہ کسی طرح مملکتِ پاکستان کے اسلامی تشخص کی بحالی کے لیے نظریاتی یا عملی سطح پر متحرک ہیں۔یہ آپریشن متاثرہ علاقوں سمیت پاکستان بھر میں جاری ہے۔آئے روز ایسے افراد کو غائب کردیا جاتاہے جو کسی بھی طرح امریکی ایجنڈے پر تنقید کو نظریاتی یا عملی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔حکومت ذو معنی خاموشی رکھتی اور عدلیہ چیختی رہ جاتی ہے۔گویا اس طرح سیکورٹی فورسز، سیکولرشناخت کے خلاف مزاحمت اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جاری سرگرمیوں کو اپنی صلاحیت اور منصب کے مطابق آہستہ آہستہ کم کرتی جارہی ہے۔اس میں وہی عناصرغائب ہورہے ہیں جن کے نظریہ وعمل کی زد فورسز کے کردار پر پڑتی ہے۔ماضی میں امریکی حکمتِ عملی کا تقاضا تو یہ تھا کہ فوج اور پاکستانی عوام کو آمنے سامنے کیا جائے تاکہ ریاست کمزور ہوجبکہ اب پاکستانی حکومت اور فورسز کی طرف سے دوبدو جنگ کی بجائے اپنے ریاستی اختیارات اور انتظامی صلاحیتوں کا دانائی سے استعمال کا رجحان سامنے آرہا ہے۔اور ان دنوں اسی سمت فکری، عملی اور عسکری اقدامات سے پیش قدمی