کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 11
پاکستان میں اگر بلوچ قبائل اپنے حقوق نہ ملنے پر خودمختاری کی بات کرسکتے ہیں،شمالی عراق میں کرد علیحدہ ریاست قائم کرسکتے ہیں تو ایسا پاکستان کے متاثرہ علاقوں میں کیوں نہیں ہوگا؟ اس بنا پر بھی اس تشدد ومزاحمت کو طول دیے جانا کسی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں۔یاد رہے کہ آج تک پاکستان کے مزاحمت کاروں یا طالبان نے علیحدہ ریاست کی بات نہیں کی اور نہ اس کے لئے کسی عالمی ساز باز میں حصہ لیا ہے جبکہ بلوچ قبائل قوم پرستی کی آڑ میں اور بعض لوگ صوبہ سندھ میں لسانی اختلافات کے بہانوں سے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اور اُنہیں شیطانی اتحادِ ثلاثہ کی تائید بھی حاصل ہے، ان کے باہمی رابطے بھی پریس میں آتے رہتے ہیں۔[1] ۴۔ماضی میں پاکستانی مقتدرہ مختلف انداز کی جارحانہ اور قوت پر مبنی حکمت عملیاں اپنا کر دیکھ چکی ہیں۔سوات میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت جو ۵۰ لاکھ آئی ڈی پیز پر مشتمل تھی، عمل میں آچکی ہے۔طالبان پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں کئی مقامات پر طالبان اور اس سے کہیں زیادہ عالمی ایجنسیاں، اس صورتحال کو پاکستان میں دہشت گردی اور بم دھماکوں کے فروغ کے لئے استعمال کرچکی ہیں۔اس خانہ جنگی اور جنگ وجدل سے پاکستان اور اسلامی امارت کی خواہش رکھنے والوں کو آخرکار کچھ حاصل نہ ہوگا۔جب حکومت نے کئی سالوں سے ہرطرح کا سخت راستہ اختیار کرکے دیکھ لیا جس کا نتیجہ اس دہشت گردی کو شہروں تک پھیلانے کے سوا کچھ نہیں نکلا تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ خلوص دل سے امن وامان اور مفاہمت کا راستہ بھی اختیار کیا جائے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سوات میں حکومت نے آپریشن کیا اور اس میں کامیابی حاصل کرلی۔یہ دعویٰ واقعی حالات کی مکمل تصویر نہیں ہے بلکہ سوات کے آپریشن نے مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے پورے ملک میں پھیلا دیاہے۔اندھی طاقت نے وہاں کامیابی حاصل کرنے کی
[1] ایسی ہی صورتحال عراق میں بھی ہے کہ عراق میں کردستان کا علاقہ عراق، شام اور ترکی کے مابین منقسم ہے اور کردوں میں دو رجحانات کے حامل گروہ ہیں۔دین دار اور سیکولر کرد... سیکولر کرد، امریکہ کی تائید کے ساتھ وہاں آزاد علاقہ قائم کرچکے ہیں اور امریکہ تیل کی بڑی مقدار ان کردوں سے براہِ راست خرید رہا ہے۔جبکہ دین دار کرداسلامی ریاستوں کے حصے بخرے کرنے کے لئے آمادہ نہیں۔