کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 109
کو شدید اختلاف ہے اور یہ اختلاف بنیادی و اُصولی نوعیت کا ہے۔ ہماری راے میں حافظ صاحب موصوف کا یہ مفصل تجزیہ اور نتیجۂ تحقیق جہاں ان کی وسعت ِمطالعہ، دقتِ نظر، سلامتی فکر اور تجزیہ و تحلیل کی بے مثال صلاحیت پر دلالت کناں ہے؛ وہیں حقائق و واقعات سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہے اور ہمیں اس سے کامل اتفاق ہے۔اس تفصیلی تجزیے کے دورانِ مطالعہ یک گونہ تشنگی کا احساس بھی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ محترم حافظ صاحب نے اس میں اتباع و تقلید اور طرزِ استدلال و استنباط پر گفتگو کو مرکوز رکھا ہے؛ عقیدہ و ایمانیات کے مباحث زیر بحث نہیں آسکے؛ لیکن محترم موصوف کی نگاہ تعمق سے یہ نقطہ اوجھل نہیں ہو نے پایا اور زیر نظر کتاب میں اس کے بعد 'عقائد علماے دیوبند' کا مضمون شامل کرکے اس تشنہ کامی کا سامانِ سیرابی بھی مہیا فرما دیا ہے۔اس سے یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ ایمان و عقائد میں بھی موجودہ احناف اور اہل حدیث کے زاویہ ہاے نظر میں اچھا خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ احناف کے نام سے اس وقت جو مکتب ِفکر معروف ہے، وہ عقائد میں سرے سے امام ابوحنیفہ اور صاحبین رحمہم اللہ کی تقلید کا قائل ہی نہیں؛ بلکہ امام ابوالحسن اشعری اور امام ابو منصور ماتریدی کے کلامی نظریات کا حامل ہے۔اسی بنا پر ہم محدث گوندلوی کے اس مقولہ کو انتہائی مجمل سمجھتے ہیں کہ ''اہل حدیث اور حنفیہ میں اختلاف نہ اُصولی ہے نہ فروعی۔'' اس کی تفصیل وہی ہے، جو حافظ صلاح الدین صاحب یوسف نے زیبِ قرطاس فرمادی ہے۔ اس موقع پر ہم فاضل مصنف اور ناظرین کی عنانِ توجہ اس دل چسپ بات کی جانب بھی مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ حضرت الامام محدث گوندلوی نے 'فاتحہ خلف الامام' کے موضوع پر اپنی بے نظیر کتاب 'خیر الکلام' میں یہ تصریح فرمائی ہے کہ ''شیعہ سنّی میں اُصولی اختلاف ہے، جب کہ اہل سنت کے مختلف فرقوں میں اختلاف فروعی نوعیت کا ہے۔'' ہمیں معلوم نہیں کہ ان میں سے کون سی تحریر مقدم ہے اور کون سی مؤخر؟ بنابریں محترم حافظ صاحب سے التماس ہے کہ وہ اس تباین و تخالف کی بھی توجیہ فرمائیں؛ آیا اسے نسخ پر محمول کیا جائے؛ یا جمع کی کوئی