کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 108
یہ ارشاد کہ "إذا صحّ الحدیث فهو مذهبی" [1]یعنی ''جب حدیث صحیح ثابت ہو جائے، تو وہی میرا مذہب ہے۔'' حضرت الامام کی انھی تصریحات کے پیش نظر ان کے باکمال شاگردوں (صاحبین) نے ہمیشہ نصوصِ قرآن و حدیث ہی کو مقدم رکھا، یہاں تک کہ اپنے ہی اُستاد کے دو تہائی مسائل سے بر بناے دلیل اختلاف کیا۔وہ حنفی علما بھی اسی گروہ میں شامل ہیں، جنھوں نے اس منہاجِ فکر و عمل کی پیروی کرتے ہوئے اتباعِ کتاب و سنت کو خلافِ نصوص فقہی جزئیات پر ترجیح دی اور فقہی جمود، گروہی تعصب اور اندھی تقلید کے خلاف آواز بلند کی۔ان میں حجۃ الہند شاہ ولی اللّٰہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ اور مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی مرحوم خاص طور سے لائق تذکرہ ہیں۔
دوسرا گروہ جمہور احناف پر مشتمل ہے؛ یہ زبانی طور پر اپنے ائمہ متقدمین کی روش پر چلنے کا دعویٰ کرتا اور حدیث و آثار کے اخذ و قبول سے متعلق محدثین کے اُصولوں کو درست قرار دیتا ہے؛ لیکن عملاً اس سے انحراف کی راہ پر گامزن ہے۔اس ضمن میں محترم حافظ صاحب نے عرب و عجم کے بعض حنفی علما کی مثالیں دی ہیں کہ کس طرح ایک مقام پر ایک اُصول کا اعتراف و اقرار کرتے اور دوسری جگہ کھلم کھلا بڑی بے دردی سے اسے پا مال کرتے ہیں۔یہ گروہ تقلید جامد پر کاربند ہے اور اپنے فقہی مذہب کے برخلاف احادیث کو مختلف طریقوں اور حیلوں سے ردّ کردیتا ہے، جس کی تفصیل مع مثالوں کے حافظ صاحب نے بیان کی ہیں۔
تیسرا گروہ، دوسرے سے بھی دو قدم آگے ہے، اور علانیہ طور پرمحدثین کے اُصولِ حدیث کا منکر ہے۔اس کا اُصول یہ ہے کہ فقہی مسائل کی صورت میں جن احادیث کی صحت ان کے فقہا سے ثابت ہے، وہ روایات بہر آئینہ صحیح ہیں، خواہ محدثین اور ماہرین فن اسے ضعیف ہی کیوں نہ کہتے رہیں!!۔یہ طائفہ مقلدین تقلید ِمذموم پر بھی فخر کا اظہار کرتا ہے؛ اس طبقہ فکر کے سرخیل مولانا محمد امین اوکاڑوی تھے اور آج کل اس کی نمائندگی 'گھمن پارٹی'کررہی ہے۔محترم حافظ صاحب کے مطابق مؤخر الذکردونوں گروہوں سے اہل حدیث
[1] ردّالمحتارعلی الدر المختار المعروف بحاشیۃ ابن عابدین:۱؍۱۵۴،دار احیاء التراث العربی،بیروت