کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 107
مضمون 'اہل حدیث اور اہل تقلید کے منہج کا فرق'شامل کیا گیا ہے، جس کا آغاز ص۲۶۲سے اور اختتام ص۲۸۴پر ہوتا ہے۔ آخر میں تین صفحات پر مبنی ایک مختصر تحریر محدثِ زماں علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی ہے جو دراصل ایک مکالمہ ہے۔اس کا موضوع ہے: ''ہم سلفی (اہل حدیث) کیوں کہلائیں؟'' مشمولاتِ کتاب کے سرسری تعارف کے بعد اب ہم اس کے مرکزی و اساسی مضمون پر اپنی گزارشات پیش کرتے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب کا مرکزی موضوع یعنی اہل حدیث اور احناف کے مابین اختلاف کی حقیقت و نوعیت، انتہائی اہمیت اور حساسیت کا حامل ہے؛ اس حوالے سے اگرچہ بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، تاہم محترم حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے اپنے مخصوص انداز میں اس پر جو خامہ فرسائی کی ہے، وہ بعض پہلوؤں سے بالکل نئی چیز ہے۔ جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا گیا، حافظ صاحب نے یہ تحریر محدث گوندلوی رحمہ اللہ کی کتاب 'الاصلاح' کے مقدمہ کے طور پر حوالۂ قلم کی تھی۔محدث گوندلوی نے لکھا ہے کہ ''اہل حدیث اور حنفیہ میں نہ اُصولی اختلاف ہے، نہ فروعی۔''[1] حافظ صاحب نے اپنے تفصیلی مقدمے میں اسی نکتے کی توجیہ و توضیح فرمائی ہے۔اُنھوں نے حنفیہ کو تین گروہوں میں تقسیم کیا ہے: پہلے گروہ میں امام ابوحنیفہ، قاضی ابو یوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی رحمہم اللہ آتے ہیں۔ان کے طرزِ فکر و عمل کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ صاحب کا کہنا ہے کہ دراصل یہی وہ طائفہ ہے، جس سے اہل حدیث کا اُصولی و فروعی کوئی اختلاف نہیں۔ان کے بقول مذکورہ ائمہ کے اُصول میں یکسر اختلاف نہیں اور فروع اُصول کے تابع ہوتے ہیں؛ فلہٰذا فروعی اختلاف بھی کوئی معتد بہ حیثیت نہیں رکھتا۔فاضل مصنف نے اپنے استدلال کے حق میں جو دلائل دیے ہیں اُن سے یہ نتیجہ بالکل واضح طور پر سامنے آتا ہے؛ مثلاً امام ابوحنیفہ کا یہ فرمان کہ ''کتاب و سنت اور اقوال صحابہ کے بالمقابل میری راے کو نظر انداز کردو۔'' [2]اسی طرح امام صاحب کا
[1] الاصلاح،ص۱۳۵، طبع جدید [2] القول المفیدفی ادلۃ الاجتہاد والتقلید للشوکانی،ص:۲۱