کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 103
لیے شریعت نے اس کی بھی سخت سزا مقرر کی ہے۔اگر سزا عبرتناک نہ ہوتی تواس جرم کو پھیلنے سے روکا نہیں جا سکتا تھا۔
معاشرے کو فتنے فساد سے بچانے کے لیے اسلامی حدود بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں اس سلسلے میں جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن لکھتے ہیں:
''تمام حدود کے نفاذ سے معاشرے کی حفاظت مقصد ہے کیونکہ یہ اللّٰہ کے حقوق میں سے ہے کہ اجتماعی زندگی کو محفوظ رکھا جائے۔اسی طرح وہ تمام اُمور جن میں فقہاے اُمّت نے اللّٰہ تعالیٰ کے حق کو غالب تصور کیا ہے، ان میں اشخاص کے انفرادی حقوق کا لحاظ نہیں رکھا جاتا بلکہ اجتماعی زندگی کا مفاد پیش نظر رکھا جاتا ہے اور اشخاص کے انفرادی مفاد کو اس کے تابع قرار دیا جاتا ہے۔''[1]
قرآنِ مجید مختلف جرائم کا ذکر ان کی خرابیوں کے سیاق وسباق میں بیان کر کے اُن کی برائی ہمارے ذہن نشین کرواتا ہے۔مثلاً قتل نفس کا ذکر اس انداز سے کیا:
﴿مَن قَتَلَ نَفسًا بِغَيرِ نَفسٍ أَو فَسادٍ فِى الأَرضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النّاسَ جَميعًا﴾[2]
''جس نے کسی جان کو بغیر حق کے قتل کیا تو اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر ڈالا۔''
ہم ذرائع ابلاغ کے ذریعے جانتے ہیں کہ ایک قتل بہت سے قتلوں کا ذریعہ بن جاتا ہے۔خاندانوں کے خاندان ختم ہو جاتے ہیں،لیکن انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو پاتی۔اسلام سے قبل کی زندگی اور آج کے دور کے میں مذہبی اور قبائلی تعصبات کی بنیاد پر ہونے والے قتل اس کی مثال ہیں۔چنانچہ قرآن مجید نے عمداً کسی کو قتل کرنے کی سخت ترین سزا سنائی ہے:
﴿وَمَن يَقتُل مُؤمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فيها وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَيهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذابًا عَظيمًا ﴾[3] ''جس نےکسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کر دیا اس کی سزا یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا اوراس پر اللّٰہ کا غضب اور لعنت ہو گی اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔''
[1] 'جرم و سزا كا اسلامی تصور' از جسٹس تنزیل الرحمٰن:۱۲۰
[2] المائدہ : ۳۲
[3] النساء: ۹۳