کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 102
واقع ہو جائے۔''[1] استحصال بھی امن وامان کو تہہ وبالا کرنے کا سبب بنتا ہے۔اسلام نے اس کا استیصال بھی کیا ہے اور محض نصیحت کر دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اللّٰہ کی ناراضگی اور آخرت کی مسئولیت کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ قانونی تحفظات کے ذریعے استحصال کو روکا گیا ہے۔استحصال زدہ طبقہ اندر ہی اندر اپنی کمزوریوں اور محرومیوں میں جلتا رہتا ہے۔استحصال کرنے والوں کے خلاف ان کے دل میں لاوا پکتا رہتا ہے۔مغرب میں سرمایہ داری کے تحت غریب کا استحصال ہوا تو کمیونزم کی شکل میں ردعمل ظاہر ہوا اور اس انقلاب میں لا تعداد انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔استحصال زدہ طبقے جب رد عمل ظاہر کرتے ہیں تو پھر کشت وخون کی ندیاں بہہ جاتی ہیں۔اسلام نے ہر طرح کے استحصال کی راہیں بند کر دیں۔ فساد کے خاتمے کے لیے اسلام نے جو ذرائع اختیار کیے ہیں،ان میں سے ایک مؤثر ذریعہ حدود و تعزیرات کا نظام ہے۔اسلامی حدود کے بارے میں شاہ ولی اللّٰہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ''شریعت نے بعض جرائم پر حدود مقرر کی ہیں۔یہ وہ جرائم ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں فتنہ وفساد پیدا ہوتا ہے اور مسلم معاشرے کا امن وسکون غارت ہو جاتا ہے۔دوسرے ان جرائم کے بار بار ارتکاب سے نفس انسانی کو ان جرائم کی لت پڑ جاتی ہے۔پھر اس جرم سے باز رکھنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔اکثر اوقات بے چارے مظلوم کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ان مجرموں کے مقابلے میں اپنا تحفظ کر سکے۔اگر ان جرائم کی روک تھام نہ کی جائے تو پھر ان جرائم کے خاتمے کیلیے محض آخرت کے خوف اور وعظ وتلقین سے کام نہیں چلتا بلکہ اس کیلئے سخت سزاؤں کا نفاذ ضروری ہوتا ہے تاکہ مجرم کا انجام سب کے سامنے ہو جسے دیکھ کر دوسرے لوگ جرم سے باز رہیں۔''[2] شاہ ولی اللّٰہ اس کی وضاحت زنا کے فعل بد سے کرتے ہیں کہ اس فعل کے نتیجے میں عورت کے خاندان کو سخت رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس سلسلے میں کشت وخون ہوتا ہے۔اس
[1] حجۃ اللّٰہ البالغہ:۲؍ ۶۱۱ [2] حجۃ اللّٰہ البالغہ:۲؍ ۱۵۸