کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 101
پھیلانے، کسی کو نسب کا طعنہ دینے اور دیگر مشتعل کرنے والی حرکات کی شد ت سے ممانعت کر دی گئی۔حسد بھی اس سلسلے میں بڑا منفی کردار ادا کرتا ہے، قرآن وسنت میں اسے بھی بہت بڑا اخلاقی مرض قرار دیا گیا۔ ظلم وزیادتی کا استیصال معاشرے میں بد امنی اور فساد بے چینی کا ایک سبب معاشرتی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں ظلم وزیادتی اور حقوق کی پامالی بھی ہے۔ظالم اپنے اقتدار، معاشرتی برتری، یا معاشی شعبے میں بالا دستی کی بنا پر دوسروں کو زیادتی کا نشانہ بناتا ہے۔ان کا استحصال کرتا ہےتو متاثرہ افراد یا طبقات احتجاج کرتے ہیں۔اگر احتجاج غیر مؤثر ہو جائے تو وہ ظالم سے خود نمٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرہ بد امنی کا شکار ہو جاتا ہے۔اسلام اس سلسلے میں معاملات کو جڑ سے پکڑتا ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔حقوق کی عدم ادائیگی دنیوی اعتبار سے قابل دست انداز آئین وقانون ہے اور آخرت میں بھی قابل مؤاخذہ جرم قرار دیا گیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے آپ کو مظلوم کی بد دعا سے بچاؤ کیونکہ مظلوم کی آہ اور اللّٰہ تعالیٰ کے درمیان کوئی آڑ اور رکاوٹ نہیں ہوتی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا)) [1] ''اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔صحابہ نے پوچھا کہ مظلوم بھائی کی تو مدد سمجھ میں آتی ہے، ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظالم کا ہاتھ روکنا اور اسے ظلم سےباز رکھنا اس کی مدد ہے۔'' اس سلسلے میں شاہ ولی اللّٰہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ''جن مقاصد کے لیے انبیاے کرام کو دنیا میں مبعوث کیا گیا ان میں سے ایک عظیم مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان مظالم کو روکنے اور ان کے تدارک کے لیے تدابیر عمل میں لائیں۔کیونکہ اگر ظلم وزیادتی کا سد باب نہ کیا جائے تو نظامِ زندگی میں ابتری
[1] صحیح بخاری:۲۴۴۳