کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 100
مقابلے میں صبر، عفو ودرگزر اور احسان کی تعلیم دی اور لوگوں کو ترغیب دی کہ اگر وہ غصہ کی حالت میں انتقامی کاروائی نہ کریں تو یہ بات اللّٰہ کو بات پسند آتی ہے۔[1] قرآن مجید کہتا ہے کہ ''اگرتم زیادہ کابدلہ لینا چاہو تو لے سکتے ہو لیکن اگر تم معاف کر دو تو یہ باعثِ اجر ہو گا۔'' لیکن بدلہ لینے میں بھی تمہیں اس بات کو ملحوظ رکھنا ہو گا کہ ''جس قدر زیادتی تمہارے ساتھ کی گئی ہے، بدلہ اسی قدر لیا جائے۔''[2]اس سلسلے میں قرآن مجید کا نظریہ یہ ہے کہ برائی کا بدلہ برائی کی صورت میں دینے کے بجائے برائی کو اچھائی اور حسن سلوک سے مٹاؤ۔اس طریق کار کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا بدترین دشمن بہترین دوست بن جائے گا۔'' [3] قرآن اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ''کسی کی زیادتی پر صبر کرجانا اپنے نتیجے کے اعتبار سے بدلہ لینے سے بہتر نتائج پیدا کرے گا۔''[4] قرآن یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ ''اگر تم لوگوں کی غلطیاں معاف کرو گے تو اللّٰہ تعالیٰ تمہاری غلطیوں پر بھی پردہ ڈالیں گے۔''[5] غرض قرآنِ مجید نے کسی بھی طرح کے اشتعال کی حوصلہ شکنی ہی نہیں کی بلکہ اشتعال کا سبب بننے والے کاموں کا سد باب کرتے ہوئے کسی کو گالی دینے کی ممانعت فرمائی، زبان کا غیر ذمہ دارانہ استعال ممنوع قرار دیا۔کسی کو کافر قرار دینے سے روکا۔لعنتی کہنے،تہمت لگانے، چغلی کرنے، کسی کا تمسخر اُڑانے، دوسروں کو حقیر جاننے، بے جاپروپیگنڈہ کرنے، افواہیں
[1] آل ِعمران:١٣٤ [2] النحل: ۱۲۶ ﴿ وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ﴾ ''اگر تم بدلہ لو تم تو اتنا ہی جتنا تم پر زیادتی کی گئی۔'' (البقرۃ:۱۹۴)؛﴿فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ﴾ ''پھر اگر کوئی تمہارے اوپر زیادتی کرے تو تم بھی اتنی ہی زیادتی اس پر کرو۔'' [3] حم السجدہ: ۳۴ ﴿اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ﴾ [4] النحل: ۱۲۶﴿وَ لَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ﴾ ''اگر بدلہ لینے کی بجائے صبر کرو تو یہ بات صبر کرنے والوں کے لیے انجام کے اعتبار سے بہتر ہو گی۔'' [5] النور: ۲۲ ﴿ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ﴾''کیا تم پسند نہیں کرتے کہ (تم لوگوں کو معاف کرو اور) اللّٰہ تمہارے گناہ معاف کر دے۔''