کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 10
ہے۔جنگ وجدل سے کسی فریق کو ایک منزل تک پہنچایا جاتا ہے لیکن معاملات کی انجام دہی باہمی اتفاق کے کسی مرحلے پر ہی موقوف ہوتی ہے۔موجودہ حالات میں بھی معاہدات ومذاکرات کے بغیر کوئی چارہ نہیں جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
۱۔پاکستان میں متاثرہ عناصر اپنا ایک موقف،ظلم کی ایک داستان اور اس کے مقابل اپنا نظریاتی استدلال رکھتے ہیں۔ان پر ہونے والے ڈرون حملے ہر ایسے شخص کو جو دل میں معمولی سی انسانیت رکھتا ہے، ان کی مدد وتائید کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔یہ ڈرون حملے عالمی سطح پر ایسی ظلم وبربریت ہے جسے کوئی بھی حکومت ونظام تسلیم نہیں کرسکتی۔اس بناپر ان کے احساسات کو صرف دبا دینا ممکن نہیں، بلکہ یہ اختلاف Frustration کی صورت کوئی نہ کوئی نتائج ومظاہر پیدا کرتا رہے گا، جب تک ان ڈرونز کی کلّی روک تھام نہ ہو۔
۲۔آغازِ کارتشدد اورجارحیتوں کا یہ سلسلہ سرحدی اور قبائلی علاقہ جات سے شروع ہوا، پھر اس نے پاکستان کے وسیع علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اب پاکستان کے بے شمار شہری اس ظلم کا شکار ہیں۔پاکستان کے ان لاکھوں شہریوں کو مملکت کی شہریت سے خارج نہیں کیا جاسکتا، اب یہ پاکستانی ریاست کے اپنے گھر کا مسئلہ ہے۔غیروں سے توسختی سے نمٹا جاسکتا ہے لیکن اپنوں کے ساتھ آخرکار کسی ایک صورتحال پر اتفاق کرنا ہی ہوگا۔پاکستان کے بہت سے سیاسی قائدین اور عوام کا ایک بڑا طبقہ امریکی عزائم اور پاکستانی حکومت کے 'پَرو اَمریکن 'طرزِ عمل کی بنا پر، اس پورے منظرنامے میں طالبان كاہمدرد بھی ہے۔
۳۔یہ متاثرہ لوگ، ایک وسیع علاقہ بھی رکھتے ہیں۔اگر ان کی ناراضی اور اختلاف تسلسل سے ایسے ہی جاری رہا، تو پھر یہ لوگ پاکستانی سرزمین سے علیحدگی کی طرف مائل ہوں گے۔یہ لوگ پاکستانی آئین، حکومت، سیکورٹی فورسز اور عوام سے پہلے ہی شاکی ہیں۔اُن پر ہونے والا مبیّنہ ظلم اس پر مستزاد ہے، وہ اس کے دفاع کے لئے اپنا عسکری نظام ترتیب دیتے رہے ہیں۔ان کی ہمسائیگی میں طالبان جہاد بھی ان کے ساتھ ہر طرح کی مدد کرنے کو تیار ہے، جس طرح ماضی میں اِنہوں نے افغانیوں کی مدد کی تھی۔افغانستان میں بھی امریکی افواج کے نکلنے کے بعد سیاسی نقشہ عنقریب تبدیل ہونے والا ہےاور عالمی طاقتیں تو ایسے موقع کی تلاش میں رہتی ہیں جہاں کسی مسلم ریاست کے مزید حصے بخرے کئے جائیں۔