کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 6
اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد بایں طور معاون ہے کہ اس کے پروچانسلر بھی مذکورہ بالا شخصیت ڈاکٹر اباالخیل ہی ہیں اور اُ س کے موجودہ چیئرمین، امام یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار معروف عالم وفقیہ ڈاکٹر عبدالرحمٰن یوسف الُدریویش ، دونوں اداروں کے مشترکہ تعلیمی مقاصد اور ترقی کے لئے بے حد پرجوش ہیں۔
جامعہ ہذا میں فی الحال ایم فل کی تعلیم کا آغاز علوم اسلامیہ اور اسلامک اکنامکس کے میدانوں میں کیا گیا ہے۔جبکہ جامعہ کی اپنی جاری شدہ اسناد کم وبیش تین دہائیوں سے سعودی عرب میں منظور شدہ ہیں۔ جامعہ ہذا برصغیر پاک وہند کا وہ واحد غیرسرکاری ادارہ ہے ، جس کی ہائرسکینڈری یعنی انٹر کی اسناد کو سعودی وزارتِ تعلیم کی طرف سے 1984ء میں انٹر /ہائر سیکنڈری کے مساوی تسلیم کرکے،سعودی یونیورسٹیوں میں طلبہ کے داخلہ کے لئے منظور کر رکھا ہے۔ماضی میں جامعہ کی اس سند پر، جو مڈل کے بعد چار سالہ تعلیم کے بعد دی جاتی ہے ، سیکڑوں طلبہ سعودی جامعات میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں، اور انہی دنوں مدینہ منورہ یونیورسٹی میں سات طلبہ کو تعلیمی سکالر شپ برائے تعلیمی سال 1435ھ حاصل ہوا ہے۔ گویا اس طرح پنجاب بھر میں کسی بھی ادارے کو حاصل ہونے والا یہ سب سے بڑا سعودی سکالر شپ ہے۔ مزید برآں جامعہ میں مڈل کے بعد آٹھ سالہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو دی جانے والی سند کو ، سعودی عرب کی منسٹری آف ہائر ایجوکیشن، 1986ء سے ایم اے کے برابر تسلیم کرکے، اس کی بنا پر سندیافتہ طلبہ کو ایم فل یعنی ماجستیر میں براہِ راست داخلہ کی منظوری دے چکی ہے۔ کسی بھی غیرحکومتی ادارے کے لئے سعودی نظام تعلیم سے ہم آہنگی اور اعتراف کی یہ سب سے بڑی مثال ہے۔
جامعہ لاہور اسلامیہ کا آغاز چالیس برس قبل عالم اسلام کی معروف ترین جامعہ، مدینہ یونیورسٹی سے فیض پانے والے ان چند مدنی علما وفضلا نے کیا تھا، جو 1962ء میں اس یونیورسٹی کے آغاز کے بعد پہلے پہل وہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے۔ مدینہ منورہ یونیورسٹی عالم اسلام کے نامور اساطین علم کی مشترکہ تدریسی وتنظیمی کاوشوں اور مشاورتوں کے ساتھ مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اُمّتِ اسلامیہ کے ذمّے عائد تعلیم دین کے فریضہ سے عہدہ برا ہونے کے لئے قائم کی گئی تھی اور مفتی دیارِ سعودیہ شیخ امام محمد بن ابراہیم اور سابق مفتی اعظم جنہیں اس وقت امام عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کے اوّلین وائس چانسلرز تھے۔