کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 39
کی اس حدیث کے مزید چار طرق اور بھی ہیں: طریق نافع بن جبیر، طریق عمرو بن دینار، طریق سلیمان بن موسیٰ، اور طریق عبد الرحمٰن بن ابو حسین... ان طرق اور ان کی سندوں پر تفصیلی بحث کے لئے علامہ محمد رئیس ندوی کی کتابیں 'غایۃ التحقیق 'اور 'قصہ ایام قربانی کا' ملاحظہ کریں۔ ان متعدد طرق کی بنا پر بہت سے اہل علم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، جن میں علامہ ابن قیم، حافظ ابن حجر، علامہ البانی، شعیب ارناؤوط، شیخ احمد غماری اور علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمہم اللہ تعالیٰ[1] قابل ذکر ہیں۔
حنفی عالم ابن الترکمانی اور بعض دیگر لوگوں نے گہرا جائزہ لیے بغیر یہ کہہ دیا کہ اس حدیث کی سند میں 'اضطراب 'ہے، یعنی سلیمان بن موسٰی نے الگ الگ اپنے اساتذہ سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ تو عرض ہے کہ سند میں اس طرح کے اختلاف کو 'اضطراب 'نہیں بلکہ 'تعددِ طرق 'کہتے ہیں۔ دریں صورت یہ چیز حدیثِ مذکور کے لئے تقویت کا باعث ہے۔یہ بڑی بھول ہے کہ جو چیز صحتِ حدیث پر دلالت کرتی ہو، اس کو تضعیف کی دلیل سمجھ لیا جائے۔
یہ بھی یاد رہے کہ یہ نظریہ درست نہیں کہ ہرجگہ ضعیف حدیث دوسری ضعیف حدیث سے مل کر حسن لغیرہٖ ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ موقف کہ ضعیف حدیث ضعیف سے مل کرکسی بھی صورت میں حسن لغیرہٖ یا مقبول وحجت نہیں ہوتی، باطل ومردود ہے بلکہ عصر حاضر کی بدعت ہے۔ چودہ سوسالہ دور میں کسی بھی عالم نے ایسا موقف اختیار نہیں کیا۔ بلکہ معاصرین میں بھی حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ علم حدیث سے دلچسپی رکھنے والے کسی بھی عالم کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ اس نے علیٰ الاطلاق اس طرح کی بات کہی ہو۔ ڈاکٹر خالد ادریس، اور عمرو عبد المنعم سلیم وغیرہ نے اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں مگر اُنہوں نےبھی یہ موقف نہیں اپنایا کہ کسی بھی صورت ضعیف حدیث، دوسری ضعیف سے مل کر تقویت نہیں پاسکتی یا مقبول وحجت نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا حسن لغیرہٖ کو علیٰ الاطلاق ردّ کردینے والا نظریہ حافظ زبیر علی زئی رحمۃاللہ علیہ کا تفرد ہے۔
[1] سنن دار قطنی:4/284؛مسند احمد(طبع میمنیہ):4/82؛زاد المعاد:2/291؛سلسلہ احادیث الصحیحہ:2476؛ مسند احمد:1657؛ مرعاۃ المفاتیح:5/108