کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 36
کفار (جانوروں کو) اپنے بتوں کے نام ذبح کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا ضروری ہے۔''[1]
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی تفسیر میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر کچھ اسی انداز پر کی ہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
''مطلب یہ ہے کہ بندے اپنی قربانیوں کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیں، نیز اس سلسلے میں یہ بات بھی کہی گئی کہ 'ذکر' ذبح کرنے سے کنایہ ہے کیونکہ یہ اس سے جدا نہیں ہوتا ، اور اللہ تعالیٰ کے قول ﴿ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ1ۚ ﴾ سے پتہ چلتا ہے کہ ﴿اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ﴾ ایام نحر ہیں۔''[2]
مولانا انعام اللہ صاحب قاسمی حفظہ اللہ اپنےر سالہ 'ایام قربانی' میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی مزید وضاحت کے لیے علامہ رازی وخطابی کے اقوال کو نقل کرنے کے بعد صفحہ 23پر لکھتے ہیں:
''اس حکمت کا یہ مفہوم ہوا کہ ایام منیٰ یوم النحر کے بعد تین دن دورِ جاہلیت ہی سے قربانی کے دن تھے جن کو شریعتِ اسلامیہ نے برقرار رکھا اور اُن کی تعداد میں کمی وبیشی نہیں کی۔ البتہ صرف اس میں تبدیلی کر دی کہ پہلے لوگ اپنی قر بانیاں بتوں کے نام کرتے تھے اور اسلام نے اللہ کے لیے مخصوص کر دیا۔''
سورۂ حج کی آیت نمبر 28 پر نگاہِ غائر ڈالنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا امام خطابی کی بیان کردہ حکمت کی وضاحت کے لیے ہی اس آیت کا نزول ہوا تھا۔ 'ايام معلومات' پہلےسے معلوم دن وہی ہیں جن میں ایام جاہلیت کے لوگ بتوں کے ناموں پر قربانیاں کرتے تھے اور ان قربانیوں کا گوشت خود نہیں کھاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قربانیاں تو تم اِنہی دنوں میں کرو جن دنوں میں پہلے کیا کرتے تھے مگر بتوں کے نام کے بجائے اللہ کا نام لے کر کیا کرو۔ اور ان میں سے کھلاؤ بھی اور کھاؤ بھی۔ گویا اس آیت کا مقصد ِنزول، ایام تشریق کو ایام قربانی ثابت کرنا ہے اور بس، اور ایام تشریق باتفاقِ علماء وباجماعِ امت یوم النحر کے بعد تین دن گیارہ، بارہ، تیرہ ذؤ الحجہ ہے۔
نوٹ:مذکورہ بالا پوری بحث الفاظ سمیت اُستاذ محترم ڈاکٹر مفضل مدنی حفظہ اللہ کے ایک فتویٰ
[1] تفسیر قرطبی12/ 41
[2] تفسیر فتح القدير3/448