کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 33
دن گذار کر) تو اس پر بھی جو پرہیز گاری کرے، کوئی گناہ نہیں ہے۔'' اس آیتِ کریمہ میں باتفاقِ مفسرین 'ايام معدودات' سے ایامِ تشریق یعنی ذو الحجہ کی 11، 12، 13 تاریخ مراد ہے۔ چنانچہ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیرمیں اس سلسلے میں لکھتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو گنتی کے چند دنوں میں اپنے ذکر کا حکم دیا ہے اور یہ (گنتی کے دن) یوم النحر(قربانی کا دن یعنی دس ذو الحجہ) کے بعد تین روز ہیں جن میں یوم النحر داخل نہیں ہے کیونکہ اس بات پر لوگوں کا اجماع ہے کہ قربانی کے دوسرے دن (یعنی گیارہ کو) کوئی حاجی منیٰ سے کوچ نہیں کر سکتا۔ اور اگر یوم النحر 'ايام معدودات' میں داخل ہوتا تو پھر (بموجبِ حکم قرآنی) عجلت باز کے لیے گیارہ کو منیٰ سے کوچ کرنا درست ہوتا، کیونکہ وہ گنتی کے (تین دنوں میں سے) دو روز گذار چکا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے دو روز گذار چکنے کے بعد منیٰ سے کوچ كرنے کی اجازت دی ہے۔''[1] اور امام طبری اس سلسلے میں یوں رقم طراز ہیں: ''ايامِ معدودات،جمرات کو کنکری مارنے کے ایام ہیں جیسا کہ مفسرین کے اقوال سے واضح ہے چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ ''یہ گنتی کے ایام 'ایام تشریق' ہیں جو قربانی کے دن کے بعد تین روز ہیں۔ امام مالک، ضحاک ودیگر اہل علم سے بھی یہی منقول ہے۔''[2] اور ابن العربی فرماتے ہیں کہ ''ايام معدودات سے مراد ایام منیٰ ہیں جو یوم النحر کے علاوہ تین دن ہیں کیونکہ یہ اقل جمع ہے، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اسے بیان کر کے ہر طرح کے اشکال کو ختم کر دیا۔''[3] یہی نہیں بلکہ امام رازی اورعلامہ شوکانی رحمہم اللہ نے اور دیگر اہل علم نے 'ايام معدودات' کے ایام تشریق ہونے پر اُمت کا اجماع نقل کیا ہے۔[4] مفسرین کے اقوالِ بالا سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ آیتِ کریمہ میں وارد ايام معدودات
[1] تفسیر قرطبی:3/1 [2] تفسیر طبری: 2/ 176 [3] احکام القرآن: 1/ 141 [4] تفسیر کبیر: 5/ 208؛فتح القدیر:1/205