کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 31
مزید یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے سود کا جوازثابت کرنا ان کے مقصد کے صریح خلاف ہے کیونکہ ان کا مقصد تو یہ ہے کہ صرف صریح سود سے ہی نہ بچو بلکہ ہر اس معاملے سے بھی بچو جس میں سود کا شائبہ بھی پایا جائے ۔
صحیح بخاری ومسلم،سنن ابو داؤد ،نسائی ،ترمذی اور موطا امام مالک میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حرمتِ سود کے بارے میں جو روایات مروی ہیں، ان سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کو سودکی حرمت اور اس کی حقیقت کے متعلق کوئی اشکال نہ تھا۔ ان کو اصل اشکال یہ تھاکہ آیا اس کا دائرہ صرف انہی چیزوں تک محدود ہے جن کا حدیث میں ذکر ہے یا ان کے علاوہ دوسری چیزیں بھی اس میں شامل ہیں ؟
چوتھی غلط فہمی: اِفراطِ زرکا مسئلہ
بعض لوگوں کے نزدیک سود درحقیقت افراطِ زر(Inflation) کی وجہ سے روپے کی قوتِ خرید میں آنے والی کمی کی تلافی کا ذریعہ ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ معاشی ماہرین کے نزدیک افراطِ زر بہت سے عوامل کے مجموعی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ اس کی ذمہ داری کسی ایک شخص پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا کرنسی کی قوتِ خرید میں کمی کا ذمہ دار مقروض کوٹھہرانا درست نہیں ہے۔
مزید برآں حدیثِ مبارکہ میں قرض دینے کو صدقہ اور نیکی قرار دیا گیا ہے ۔ اگر روپے قوتِ خرید کم ہونے کی صورت میں قرض دہندہ کو نقصان ہوتا ہے تو اس کو آخرت میں اس کا اجر وثواب بھی ملے گا۔
مذکورہ بالا شبہات کے مزید تفصیلی جوابات کے لئے مدیر اعلیٰ 'محدث' مولانا
حافظ عبد الرحمٰن مدنی حفظہ اللہ کا تفصیلی مضمون ملاحظہ کریں جو محدث کے سود نمبر
مجریہ اکتوبر 1999ء میں شائع شدہ ہے ۔ یہ مضمون دراصل شریعت اپلیٹ بنچ میں
جون 1999ء میں دورانِ مقدمہ چار روز تک ہونے والے اُن کے تفصیلی بیان پر مشتمل ہے۔
'سود نمبر' محدث کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے: www.mohaddis.com