کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 30
نجات پاسکو۔''
اور یہ بات طے ہے کہ یہ آیت غزوہ اُحد کے فوراً بعد نازل ہوئی تھی۔ بعض روایات سے تو یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سود غزوہ اُحد سے پہلے ہی ممنوع قرار دیا جاچکا تھاجیساکہ حضرت برّا بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
قَدِمَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَنَحْنُ نَتَبَایَعُ هَذَا الْبَیْعَ فَقَالَ مَا کَانَ یَدًا بِیَدٍ فَلَیْسَ بِهِ بَأْسٌ وَمَا کَانَ نَسِیئَةً فَلاَ یَصْلُحُ[1]
'' نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اور ہم یہ بیع کرتے تھے (ایک مخصوص بیع کی طرف اشارہ ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو نقد بہ نقد ہو، اس میں کوئی حرج نہیں اور جو اُدھار ہو، وہ درست نہیں ہے۔''
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ أُقَیْشٍ کَانَ لَهُ رِبًا فِي الْجَاهِلِیَّةِ فَکَرِهَ أَنْ یُسْلِمَ حَتَّی یَأْخُذَهُ فَجَاءَ یَوْمَ أُحُدٍ. فَقَالَ: أَیْنَ بَنُو عَمِّی؟ قَالُوا بِأُحُدٍ. قَالَ: أَیْنَ فُلاَنٌ؟ قَالُوا: بِأُحُدٍ. قَالَ: أَیْنَ فُلاَنٌ؟ قَالُوا: بِأُحُدٍ فَلَبِسَ لأْمَتَهُ وَرَکِبَ فَرَسَهُ ثُمَّ تَوَجَّهَ قِبَلَهُمْ فَلَمَّا رَاٰہُ الْـمُسْلِمُونَ قَالُوا إِلَیْكَ عَنَّا یَا عَمْرُو! قَالَ: إِنِّي قَدْ اٰمَنْتُ[2]
''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عمرو بن اقیش رضی اللہ عنہ کا زمانۂ جاہلیت میں کسی کے ذمہ سود تھا، اُنہوں نے اس کے وصول کرنے تک اسلام قبول کرنے کو نا مناسب سمجھا، وہ جنگِ اُحد کے دن آئے اور پوچھا: میرے چچا زاد کہاں ہیں ؟ جواب ملا: جنگِ اُحد میں ،پوچھا: فلاں کہا ہے؟جواب دیا گیا: اُحد میں ،اُنہوں نے پوچھا: فلاں کہاں ہے؟ کہاں گیا: اُحد میں۔ اُنہوں نے اسلحہ پہنا اور گھوڑے پر سوار ہو کر اُحد کی طرف روانہ ہو گئے ۔جب مسلمانوں نے اُنہیں دیکھا تو کہنے لگے :اے عمرو !دور ہو جاؤ ،اس پر اُنہوں نے کہا:میں اسلام لا چکا ہوں۔''
[1] صحیح بخاری:3940-3939
[2] سنن ابو داؤد:2537