کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 29
قرآن کہتا ہے : ﴿ وَلا تَقتُلوا أَولـٰدَكُم مِن إِملـٰقٍ﴾[1] ''فقر وفاقہ کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ۔'' اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ فقر وفاقہ کے خوف کے بغیر اُنہیں قتل کیاجا سکتا ہے ۔ تیسری غلط فہمی: سود کی مکمل وضاحت نہیں ہوئی! بعض لوگ سود کے حق میں یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق نے فرمایا تھا کہ سود کی آیت قرآنِ مجید کی آخری آیات میں سے ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت کئے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوگئے لہٰذا سود کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی معلوم نہ تھا کہ سود کیا ہے ۔ لیکن ان کا یہ استدلال واضح طور پر باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سود لینے والوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔ کیا یہ تصور کیاجاسکتا کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسے عمل پر اعلانِ جنگ فرما دیا ہو جس کی حقیقت ہی کسی کومعلوم نہ ہو جب کہ اللہ عزوجل کا اُصول ہے: ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...286﴾[2] ''اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔'' حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سود کی حرمت آپ کی زندگی کے بالکل آخری ایام میں نازل ہوئی تھی کیونکہ اس کی حرمت تو غزوۂ اُحد کے فوراً بعد نازل ہوچکی تھی۔ چنانچہ سورۂآل عمران میں فرمایا : ﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلُوا الرِّ‌بو‌ٰا۟ أَضعـٰفًا مُضـٰعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿130﴾[3] ''اے ایمان والو! سود کو دگنا چوگنا کر کے مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تا کہ تم آخرت میں
[1] بنی اسرائیل : 31 [2] سورة البقرة: 276 [3] سورة آل عمران :130