کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 28
دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے اس قرض سے کاروبار کیا تھا۔[1]
علاوہ ازیں قرض کی مقدار سے بھی یہ واضح ہے کہ یہ قرضہ ذاتی ضرورت کے لیے نہیں بلکہ کاروبار کے لیے لیا گیا تھا۔ موطا امام مالک میں ہے :
''حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ اور عبیداللہ ایک لشکر کے ساتھ عراق گئے۔ جب وہ واپس آرہے تھے تو ان کی ملاقات بصرہ کے گورنر ابوموسٰی اشعری سے ہوئی ،تواُنہوں نے کہا میری یہ خواہش ہے کہ تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکوں ۔میرے پاس بیت المال کا کچھ مال ہے جو میں مدینہ منورہ امیر المؤمنین کی خدمت میں بھیجنا چاہتا ہوں، میں وہ مال تمہیں بطورِ قرض دے دیتا ہوں، تم یہاں سے کچھ سامان خرید لو اور مدینہ منورہ میں وہ سامان بیچ کر اصل سرمایہ بیت المال میں جمع کرا دینا اور نفع خود رکھ لینا ۔ چنانچہ اُنہوں نے ایسا ہی کیالیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس پر راضی نہ ہوئے کیونکہ یہ ان کے صاحبزادوں کے ساتھ امتیازی سلوک تھا۔ اس لیے اُنہوں نے اسے 'مضاربہ' قرار دے کر اصل سرمائے کے علاوہ ان سے آدھا نفع بھی وصول کیا۔''[2]
یہ قرض بھی کاروبار کے لیے ہی دیا گیا تھااس لیے یہ کہنا کہ نزولِ قرآن کے وقت کاروباری قرضوں کا رواج نہیں تھا درست نہیں ہے۔
دوسری غلط فہمی: سود مرکب یا سود دَرسود
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے صرف مرکّب سود (Compound Interest) کو حرام قرار دیا ہے۔مفرد سود (Simple Interest) کو حرام قرار نہیں دیا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے سود کی مد میں واجب الوصول ہر قسم کی رقم سے دستبردار ہونے کاحکم دیا ہے جس میں مفرد سود بھی شامل ہے ۔ بعض اوقات قرآن کسی جرم کی قباحت بیان کرنے کے لئے ایسی باتیں بھی ذکر کردیتاہے جو اس جرم کالازمی عنصر نہیں ہوتا ،مثلاً
[1] فتح الباری: 4/594
[2] موطا امام مالک:کتاب القراض ،باب ماجاء فی القراض:687