کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 27
سود کے بارے میں بعض غلط فہمیاں
قرآن حکیم میں چونکہ انتہائی سخت الفاظ اور بڑی شدّ ومد کے ساتھ سود کی مذمت کی گئی ہے اس لئے مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر اس کی حرمت پر متفق ہیں تاہم بعض مسلمانوں میں اس حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کو دور کرنا ضروری ہے ۔
پہلی غلط فہمی: کاروباری سود یا کمرشل انٹرسٹ
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن نے صرف اس سود کو حرام قرار دیا ہے جو غریب اور پریشان حال لوگوں سے لیا جائے لیکن اگر کاروباری قرض پر سود لیا جائے تو اس کو قرآن حرام قرار نہیں دیتا کیونکہ نزولِ قرآن کے وقت کاروباری قرضوں کا رواج ہی نہیں تھا ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں ذاتی اور کاروباری قرضوں کی کوئی تفریق موجود نہیں ہے۔قرآن کہتا ہے کہ تم صرف اپنا اصل سرمایہ اور رأس المال لینے کے مجاز[1] ہو۔اس حکم کا اطلاق کاروباری قرضوں پر بھی ہوتا ہے کیونکہ اصل سرمایہ اور رأس المال کے الفاظ کاروباری سیاق و سباق میں ہی بولے جاتے ہیں ۔
اگر اُمرا سے سود لینا جائز ہوتا تو پھر 'رباالبیوع' حرام نہ ہوتاکیونکہ اس میں کسی غریب سے سود نہیں لیاجاتابلکہ یہ دو فریقوں کے درمیان برابری کے بنیاد پر تبادلہ ہوتا ہے مگر اس کے باوجود اسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے ۔
اور پھر یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ نزولِ قرآن کے وقت کاروباری قرضوں کا رواج نہیں تھا۔ کاروباری قرضوں کارواج تو زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ :
'' نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا واقعہ بیان فرمایا کہ اس نے ایک شخص سے اللہ کو ضامن بنا کر ایک ہزار دینار قرض لیا اور سمندری سفر پرروانہ ہوگیا ۔''[2]
[1] سورۃ البقرۃ : 278
[2] صحیح بخاری: 2291