کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 26
اور ان کے باہمی تبادلے کی جائز وناجائز صورتیں یوں بیان کی ہیں:
1. ایک گروپ کی دو ایک جیسی چیزوں جیسے سونے کا سونے یا چاندی کا چاندی یا گندم کا گندم کے ساتھ تبادلہ، اس میں کمی بیشی اور اُدھار دونوں منع ہے۔ اُدھار ناجائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دو ایک جیسی چیزوں میں حقیقی برابری تب ممکن ہے جب دونوں کی ادائیگی کا وقت بھی ایک ہو۔
2. ایک گروپ کی دو مختلف چیزوں کا تبادلہ جیسے سونے کا چاندی یا گندم کا چاول کے ساتھ تبادلہ ۔ اس میں کمی بیشی جائز ہے مگر ادھار جائز نہیں کیونکہ ادھار کمی بیشی سودی مزاج پر دلالت کرتی ہے ۔ وہ اس طرح جو شخص آج دس من گندم دے کر یہ طے کرتا ہے کہ وہ ایک مہینہ بعد پانچ من چاول لے گا تو اس کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ایک ماہ بعد پانچ من چاول دس من گندم کے برابر ہوں گے۔ اس نے دونوں کے درمیان تبادلے کی جو نسبت پیشگی طے کر لی ہے، یہ سودی ذہنیت کا ہی نتیجہ ہے جبکہ اس کے برعکس نقد تبادلہ ہمیشہ بازاری نرخ پر ہی ہوتا ہے۔ اس لیے شریعت نے نقد تبادلے کو تو جائز قرار دیا ہے لیکن اُدھار کی اجازت نہیں دی۔
3. ایک گروپ کی کسی چیز کا دوسرے گروپ کی کسی چیز سے تبادلہ جیسے سونے کا گندم یا چاندی کا جوکے ساتھ لین دین، اس میں کمی بیشی بھی جائز ہے اور اُدھار بھی۔
یہی حکم ان اشیا کے باہمی تبادلے کا ہے جو حرمت کی علت میں ان چھ اشیا کے ساتھ شریک ہیں۔ اب ان اشیا کی حرمت کی علت کیا ہے اس میں فقہاے کرام کا اختلاف ہے ۔ صحیح موقف یہ ہے کہ سونے اور چاندی میں حُرمت کی وجہ ان کا ثمن( زر) ہونا ہے ، لہٰذا موجودہ دور کی کرنسیوں کو اِن پر قیاس کیا جائے گا اور ایک ملک کی کرنسی کا اُسی ملک کی کرنسی سے کمی بیشی کے ساتھ اور اُدھار تبادلہ حرام ہو گا جبکہ باقی چار اجناس میں حرمت کی وجہ قابل غذا وقابل ذخیرہ ہوتا ہے، اس لیے وہ تمام غذائی اشیا جنہیں ذخیرہ کیا جا سکتا ہے،ان کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ ممنوع ہے۔