کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 25
کہا: اے ابو عبدالرحمٰن (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت)میں سونے کو ڈھالتا ہوں ،پھر زیادہ وزن پر فروخت کر دیتا ہوں اور اپنے ہاتھ کی محنت کے بقدر بچا لیتا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کو منع کر دیا، تاہم وہ سنار بار بار مسئلہ پیش کرنے لگااور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اسے منع کر رہے تھے۔ یہاں تک مسجد کے دروازے تک یا جس سواری پر سوار ہونا چاہتے تھے اس تک پہنچ گئے۔پھر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: دینار دینار اور درہم درہم کے بدلے اُن میں تفاضل (کمی بیشی) جائز نہیں ہے ۔ یہ ہمارے نبی کا ہم سے عہد ہے اور ہمارا تمہارے ساتھ عہد ہے۔''[1] اس طرح کا ایک واقعہ حضرت عطا بن یسار سے بھی مروی ہے ۔وہ کہتے ہیں : أَنَّ مُعَاوِیَةَ بَاعَ سِقَایَةً مِنْ ذَهَبٍ أَوْ وَرِقٍ بِأَکْثَرَ مِنْ وَزْنِهَا فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاء ِسَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ ِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَنْهَی عَنْ مِثْلِ هَذَا إِلَّا مِثْلاً بِمِثْلٍ[2] '' ایک مرتبہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سونے یا چاندی کی بنی ہوئی ایک مشک اس کے وزن سے زائد سونا یا چاندی وصول کر کے فروخت کی توحضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ اس طرح کے سودے سے منع کرتے تھے، سوائے اس کے کہ برابر برابر ہو ۔'' کمی بیشی کے ساتھ تبادلے کی جائز وناجائز صورتیں صحیح مسلم میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الأَصْنَافُ فَبِیعُوا کَیْفَ شِئْتُمْ إِذَا کَانَ یَدًا بِیَدٍ)) [3] ''جب یہ اشیا مختلف ہوں تو جس طرح چاہوفروخت کرو بشرطیکہ تبادلہ نقد ونقد ہو۔'' اہل علم نے آسانی کے لیے ان اشیا کو دو گروپوں میں تقسیم کیا ہے : 1 ۔ سونا، چاندی 2۔ گندم، جَو ، کھجور اور نمک
[1] موطا امام مالک، باب بیع الذہب بالفضۃ تبراو عینا [2] سنن نسائی، باب بیع الذہب بالذہب:4576 [3] صحیح مسلم،باب بیع الصرف وبیع الذہب4063