کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 24
کرو۔جب تم عمدہ کھجوریں خریدنا چاہو تو اپنی کھجوریں کسی دوسری چیز کے عوض بیچ دو پھر اس سے عمدہ کھجوریں خریدو۔'' اسی طرح اگر کسی چیز میں سونا اور دوسری اشیا ملی جلی ہوں تو جب تک سونے کو علیحدہ نہ کر لیا جائے اس کواسی حالت میں متعین سونے کے عوض بیچناجائز نہیں ہے ۔ چنانچہ سیدنا فضالہ بن عبیدانصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: أُتِيَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَهُوَ بِخَیْبَرَ بِقِلاَدَةٍ فِیهَا خَرَزٌ وَذَهَبٌ وَهِیَ مِنَ الْـمَغَانِمِ تُبَاعُ فَأَمَرَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِالذَّهَبِ الَّذِی فِي الْقِلاَدَةِ فَنُزِعَ وَحْدَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ((الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَزْنًا بِوَزْنٍ)) [1] ''خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ہار لایا گیا جس میں کَڑیاں اور سونا تھا۔ وہ مالِ غنیمت میں سے تھااورفروخت کیا جارہاتھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہار میں موجود سونے کے بارے میں فرمایا تو اسے الگ کر دیاگیا۔پھر آپ نے ان سے کہا: سونا سونے کے ساتھ وزن کر کے فروخت کیا جائے ۔'' دوسری روایت میں فضالہ بن عبید فرماتے ہیں : ''میں نے خیبر کے روز بارہ دینار کے عوض ایک ہار خریدا جس میں سونا اور کَڑیاں تھیں۔میں نے اس کو الگ الگ کیا تو اس میں بارہ دینار سے زائد سوناپایا ۔میں نے اس بات کا تذکرہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: جب تک جدا جدا نہ کر لیا جائے اسے بیچانہ جائے ۔''[2] حتیٰ کہ اگر ہم سونے یا چاندی کی بنی ہوئی کوئی چیز خریدیں تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے کہ اس کی قیمت میں اس کے وزن سے زائد سونا یا چاندی دینا جائز نہیں کیونکہ اس کی آڑ میں سود ی مرض کو در آنے کاموقع مل سکتا ہے ۔ چنانچہ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : '' میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھاکہ ان کے پاس ایک سنار آیا۔ اس نے
[1] صحیح مسلم:4075 [2] ایضاً