کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 23
ذہنیت پرورش پانے کا اندیشہ تھا۔ دین اسلام کایہ طرہ امتیازہے کہ جب وہ کسی چیز کو حرام قرا ر دیتاہے تو اس برائی تک پہنچنے کے تمام راستے اور ذرائع بھی بند کر دیتاہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ حکمت خود ہی بیان فرما دی ہے۔
((لاَ تَبِیْعُوا الدِّیْنَارَ بِالدِّیْنَارَیْنِ وَلاَ الدِّرْهَمَ بِالدِّرْهَمَیْنِ وَلاَ الصَّاعَ بِالصَّاعَیْنِ فَإِنِّيْ أَخَافُ عَلَیْکُمْ الرَّمَاءَ وَالرَّمَاءُ هُوَ الرِّبَا)) [1]
''ایک درہم کو دو درہم اور ایک صاع کو دو صاع کے عوض نہ بیچو کیو نکہ مجھے خوف ہے کہ کہیں تم سود خوری میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔''
یہ حقیقت ہے کہ ایک قسم کی دو چیزوں کے درمیان تبادلہ ادنیٰ اور اعلیٰ یعنی کوالٹی کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے کہ ایک طرف عمدہ گندم ہو تی ہے اور دوسری طرف کم تر ۔چونکہ کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ سود کا سبب بن سکتا ہے، اس لئے شریعتِ اسلامیہ نے یہ اُصول طے کر دیا ہے کہ یا تو کوالٹی کا فرق نظر اندازکر کے لین دین کیاجائے یاپھر اپنی چیز بیچ کر مطلوبہ چیز خرید ی جائے جیساکہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
جَاءَ بِلاَلٌ إِلَى النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِتَمْرٍ بَرْنِیٍّ فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم : «مِنْ أَیْنَ هَذَا؟» قَالَ بِلاَلٌ: کَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِیٌّ ، فَبِعْتُ مِنْهُ صَاعَیْنِ بِصَاعٍ، لِنُطْعِمَ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم . فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم عِنْدَ ذَلِكَ (( أَوَّهْ أَوَّهْ عَیْنُ الرِّبَا عَیْنُ الرِّبَا، لاَ تَفْعَلْ وَلَکِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِیَ فَبِعِ التَّمْرَ بِبَیْعٍ آخَرَ ثُمَّ اشْتَرِه)) [2]
''ایک دفعہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عمدہ قسم کی کھجوریں لائے ۔آپ نے پوچھا یہ کہاں سے لائے ہو؟انہوں نے عرض کیا: ہمارے پاس گھٹیا قسم کی کھجور تھی، میں نے وہ دو صاع دے کر ایک صاع خرید لی تاکہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عمدہ کھجوریں کھلائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہائے یہ توقطعی سود ہے یہ قطعی سودہے، ایسا ہرگز نہ
[1] مسند احمد:6095
[2] صحیح بخاری:2312؛ صحیح مسلم:4083