کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 22
راستے رکھے ہیں: 1. جو کم تر چیزکے بدلے اعلیٰ یا اعلیٰ کے بدلے کم تر لینا چاہتا ہے وہ پہلے اس چیز کو بازار میں فروخت کرے، اس کے بعد اپنی مطلوبہ چیز خریدے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے : أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اسْتَعْمَلَ رَجُلًا عَلَى خَیْبَرَ فَجَاءَهُ بِتَمْرٍ جَنِیْبٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم : «أَکُلُّ تَمْرِ خَیْبَرَ هٰکَذَا» قَالَ: لَا وَ اللّٰهِ یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِالصَّاعَیْنِ وَالصَّاعَیْنِ بِالثَّلَاثَةِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم «لَا تَفْعَلْ، بِعْ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِیْبًا)) [1] ''نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو خیبر میں عامل مقرر کیا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہترین کھجوریں لے کر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کیا خیبر کی تمام کھجوریں اس قسم کی ہیں؟ اس نے جواب دیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! واللہ ایسی نہیں ہیں، ہم دو صاع کے بدلے اس کا ایک صاع اور تین صاع کے بدلے اس کے دو صاع وصول کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، ان ہلکی کھجوروں کو نقد درہموں سے بیچو پھر ان درہموں سے اعلیٰ کھجوریں خریدو۔...اور یہی ہدایت وزن کی جانے والی اشیا کے متعلق فرمائی۔'' 2. اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں اشیا کے مابین خاصیت کے فرق (Quality) کو نظر انداز کر دیا جائے ۔ ربا البیوع کیوں حرام ہے؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کوالٹی میں فرق کی بنیادپر کمی بیشی کے ساتھ تبادلے میں بظاہر کوئی خرابی نظر نہیں آتی کیونکہ اعلیٰ درجے اور کم تر درجے کی چیز برابر نہیں پھر شریعت نے اسے کیوں حرام قرار دیا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے انسان میں سود خوری کی
[1] صحیح بخاری:2201،2202