کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 20
یہود ونصاریٰ کی طرح ہندؤں کے مذہب میں بھی سود حرام ہے جیساکہ مغل شہزادے داراشکوہ اور معروف ہندوپنڈت کے درمیان ہونے والے مکالمے سے واضح ہے ۔داراشکوہ نے پنڈت صاحب سے پوچھا:کیا مسلمان پر سود کا لیناحرام اور اہل ہنود پر حلال ہے ؟تو پنڈت صاحب نے جواب دیا: اہل ہنود پر سود لیناحرام سے بھی زیادہ برا ہے ۔اس پر دارا شکوہ نے سوال کیا کہ پھر سود لیتے کیوں ہیں ؟تو پنڈت جی نے کہا کہ یہ رواج پاگیا ہے اور اس کا رواج پانا اس کے نقصان سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ہے ۔ [1]مگر الم ناک صوت حال یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں سمیت سب ہی اس ملعون دھندے میں لگے ہوئے ہیں ۔
سود کیا ہے ؟
سود کو عربی زبان میں رِبا کہتے ہیں جس کا لغوی معنیٰ ہے'اضافہ' جب کہ شریعت کی اصطلاح میں سود اس متعین اور طے شدہ اضافی رقم کوکہاجاتا ہے جو مقروض قرض دینے والے کو اصل سرمائے کے ساتھ واپس کرتا ہے یاوہ اضافی رقم جوبیع کے نتیجے میں واجب ہونے والی رقم کی ادائیگی میں تاخیر کی بنا پر وصول کی جائے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُءوسُ أَموٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴿279﴾[2]
''اور اگر تم تو بہ کر لو توتمہارے لیے تمہارا اصل مال ہی ہے۔ ''
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفعَةً فَهُوَ رِبًا)) [3]
''ہر وہ قرض جو فائدے کا باعث بنے، وہ سود ہے ۔''
یعنی قرض خواہ کا اپنے مقروض سے اصل سرمائے کے علاوہ کسی بھی نام سے زائدرقم وصول کرناسود ہے چاہے وہ سود کے نام سے وصول کی جائے یا نفع اور مارک اپ کے نام سے۔اس میں
[1] اسرارِ معرفت: 21
[2] سورة البقرة :279
[3] جامع الصغیر: 9728 ... سود کی جامع ترتعریف کیلئے محدث کے سود نمبر کا صفحہ 46،83،42 ملاحظہ کریں۔ ح م