کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 13
جاتی۔جبکہ جامعہ ہذا کا موجودہ اقدام، طالب علم کو عین انہی سرکاری اسناد کا حق دار بنادیتا ہے، جو پاکستان کی اعلیٰ ترین اور ہر مقام پر معتبر ومستند شہادات ہیں۔ اس طریقے میں حکومت اور ایچ ای سی کے پیش کردہ نظام میں مہیا گنجائشوں سے استفادہ کیا گیا ہے، تاکہ مستقبل میں یہ طلبہ ایک متوازی نظام تعلیم کے بجائے مرکزی قومی نظام تعلیم کے دھارے میں شامل ہوجائیں۔
اس مقصد کے لئے برصغیر کے روایتی مدارس اور اُن کے موجودہ مسائل سے بالاتر ہوکر، عالم عرب میں موجود اسلامی جامعات میں موجود علوم اسلامیہ کی تدریس کے نظام سے ہمیں استفادہ کرنا ہوگا۔توجہ طلب امر ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس کے فضلا مدینہ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، گویا وہاں سرکاری تعلیم حاصل کرکے ، اُن کے علم وفضل پر کوئی حرف آنے کی بجائے، اس میں مزید وقار اور اعتبار واعتماد پیدا ہوتا ہے۔ یہی وہ نکتہ مشترکہ ہے ، کہ پاکستانی مدارس عرب کی اسلامی جامعات کے نظام ونصاب کا اپنے مروّجہ نظام سے تجزیہ وتقابل کریں، اور مستقبل کے لئے مضبوط لائحۂ عمل تشکیل دیں۔ تاہم ان عظیم تر اعلیٰ مقاصد کےلئے انتہائی محنت، باریک بینی، جدوجہداور اخلاصِ نیت ضروری ہیں ۔ جامعہ ہذا نے چالیس برس کی مسلسل جدوجہد کے بعد ان مقاصد کو حاصل کیا ہے ۔ جامعہ ہذا میں گذشتہ سالوں میں تجربہ کار اساتذہ کرام کی دانش وبصیرت کو مسلسل اور طویل مشاورتوں میں بروے کار لاتے ہوئے نصاب ونظام میں ایسی مفید اور بامقصد اصلاحات کی گئی ہیں جن کی ایک طرف مستند علما نے تائید کی ہے اور دوسری طرف اُن کے ذریعے دینی مدرسہ کے اصل مقاصد کی بہتر پاسداری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ چار برسوں قبل آنے والی اس تبدیلی کوطلبہ کا اعتماد حاصل ہے اور اس سے آخری کلاسوں میں جامعہ کا داخلہ میں اضافہ ہوا ہے۔جامعہ کے فضلا جس جس ادارے میں موجود ہیں، وہاں اُن کے علم وفضل کے ساتھ ساتھ ، ان میں فرقہ وارانہ رجحانات کی کمی، اور اس کے مقابلے میں ملت اور اسلام کو درپیش مسائل کے بارے میں فکر مندی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ قدامت پرستی سے گریز اور جدید صالح تجربات سے استفادہ، ایک بلند علمی معیار اور غیرمعمولی جہد وکاوش کا متقاضی ہے۔
مدارس کا موجودہ نظام مسجد ومدرسہ کے ماہرین تو ہمیں میسر کرتا اور امامت وخطابت کی صلاحیت تو پیدا کرتا ہے ، لیکن اگر ہم اسی پر اکتفا کریں تو یہ استعمار کا تشکیل کردہ ہمارے لئے وہ سیکولر دائرہ عمل ہے کہ ہمارا دین بس ہماری انہی پرائیویٹ ضروریات تک محدود رہے، اور