کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 12
''اخبار میں کوئی اشتہار، نہ خبر، نہ ٹی وی پر کوئی ٹِکر... صرف چار پانچ گھنٹوں میں یہ خبر سینہ بہ سینہ یا پھر ایس ایم ایس اور فون کالز کے ذریعے پھیلی اور شوکت خانم ہسپتال سے دو کلومیٹر دور جامعہ لاہور الاسلامیہ، البیت العتیق کی وسیع مسجد کے ہال، صحن اور گیلریوں میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ یہ آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے آنے والے مہمانوں کا خیرمقدم بھی تھا، اور امامِ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نمازِ عشاپڑھنے کی سعادت بھی۔ امامِ کعبہ تو وقتاً فوقتاً پاکستان آتے رہتے ہیں،ہمیں یاد ہے کہ لاہور اور کراچی میں لاکھوں فرزندانِ اسلام نے ان کی اقتدا میں نمازیں ادا کیں۔ کچھ عرصہ قبل مشرف دور میں بھی آئے تھے، لیکن جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے ، اہل پاکستان کو مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے امام کی میزبانی کا شرف کم کم ہی حاصل ہوا ۔'' (5/اکتوبر 2013ء)
جامعہ لاہور الاسلامیہ میں اعلیٰ اور سرکاری سطح پر معتبر ومستند تعلیمی مراحل کا آغاز محض ایک اسلامی ادارہ کا ارتقا ہی نہیں ہے،بلکہ دراصل یہ اس خلیج کو پاٹنے کی اہم ترین کوشش بھی ہے جس کی بنیاد انگریز استعمار نے دو صدیوں قبل رکھی تھی، جب اس نے اپنے سیکولر نظریات کے مطابق دینی تعلیم کو معاشرے سے دیس نکالا دیتے ہوئے اس کو حجروں اور مساجد تک محدود کرنے کی سعئ بد کی تھی۔ جامعہ میں دینی اہداف ومقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ تعلیمی مراحل کا آغاز،مسٹر اور ملا کے نام سے رائج کی جانے والے مسلم معاشرے کی تقسیم کے خلاف ایک ٹھوس عملی قدم ہے۔ یہ امتزاج اس امر کا بھی عکاس ہے کہ دینی اور سرکاری نظام ہائے تعلیم بہت سے مراحل پر متحد ویکجا بھی ہوسکتے ہیں۔ اس امر کی کوئی مجبوری نہیں ہے کہ دینی تعلیم کو سرکاری اعتراف ومنظوری سے دور رکھا جائے۔تعلیم کی دو متوازی دائروں میں تقسیم دراصل اس ثنویت کا شاخسانہ ہے، جسے سیکولرزم نے ہماری پوری زندگی میں پھیلا کر، اسے مسموم کررکھا ہے۔
جامعہ ہذا میں صرف ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم ہی سرکاری تقاضوں کے مطابق نہیں ہورہی بلکہ اس سے قبل ایف اے کے بعد کے کلیہ وکالج کے مراحل بھی سرکاری تقاضوں کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ماضی میں وفاقوں کے تحت ، دینی تعلیم کو ایک متوازی نظام تعلیم مانتے ہوئے، ان کے مساوی ومعادل ہونے کے نظریے کے تحت اُن کی اسناد کو منظوری دی گئی تھی، جو اکثر وبیشتر کامل سند کے تقاضے پورے نہیں کرتی، کبھی علما کو میدانِ سیاست میں اور کبھی سائنس ومینجمنٹ کے علوم میں وفاق کی سند کی بنا پر آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی