کتاب: محدث شمارہ 363 - صفحہ 11
رہے ہیں۔ جبکہ شیخ حذیفی کے فرزند ڈاکٹر احمد علی حذیفی ، مسجد قبلتین مدینہ منورہ کے باضابطہ امام ہونے کیساتھ گاہے مسجدِ نبوی میں بھی امامت کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دونوں مبارک شخصیات اور اُن کے ہمراہ شیخ عباس شکری ، جو مسجدِ نبوی کے مؤذن ہیں، تینوں مدینہ منورہ یونیورسٹی کے معزز اساتذہ کرام بھی ہیں اور اپنے علم وفضل کی بنا پر بھی اُن کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ البیت العتیق میں اس مبارک شب کو نمازِ عشا کی اذان شیخ عباس شکر ی نے دی اور ہزاروں انسانوں کا جم غفیر اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھا۔ نمازِ عشا کے دوران لوگوں کا جوش وجذبہ دیدنی تھا، بہت سوں کی آنکھوں سے خوشی ومسرت کے آنسو رواں تھے۔ امام مسجدِ نبوی ڈاکٹر شیخ محمد ایوب کی امامت میں نماز ادا کرنے والوں میں خواتین وحضرات کی بڑی تعداد کے علاوہ، لاہور کی ممتاز دینی شخصیات بھی شریک تھیں، جنہوں نے مدینہ منورہ کے ان مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا۔مولانا حافظ مسعود عالم، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، مولانا محمد رمضان سلفی، مولانا حافظ محمد شریف، قاری محمد ادریس العاصم ،ڈاکٹر محمد حماد لکھوی، قاری محمد ابراہیم میر محمدی، مولانا عبد الماجد سلفی، مولانا محمد شفیق مدنی ،ڈاکٹر عبد الغفور راشد،قاری صہیب احمدمیر محمدی وغیرہ کے علاوہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم مولانا فضل الرحیم اشرفی، دارالعلوم اسلامیہ کامران بلاک کے نائب مہتمم مولانا ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی، جماعت اسلامی کی علما کونسل کے چیئرمین مولانا عبد المالک، جناب امیر العظیم، تنظیم اساتذہ پاکستان کے صدر پروفیسر میاں محمد اکرم اور نامور صحافی جناب انور قدوائی، سجاد میر، رؤف طاہر، تاثیر مصطفیٰ اور بہت سی نمایاں اور قدآور سیاسی شخصیات موجود تھیں ۔ اس موقع پر راقم الحروف نے استقبالیہ کلمات میں مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ، اُنہیں ایسی جامعہ میں خوش آمدید کہا جو پاکستان میں مدینہ منورہ یونیورسٹی کے متعارف کردہ نظامِ تعلیم کی نمائندہ سمجھی جاتی ہے اور یہاں پاکستان بھر میں سب سے بڑی تعداد میں مدینہ یونیورسٹی کے فضلا تدریس وتحقیق میں مصروفِ عمل ہیں۔ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی ، ڈاکٹر حافظ انس مدنی اور جامعہ کے اساتذہ کرام نے پروگرام کے تمام انتظامات سنبھالے۔مدینہ یونیورسٹی سے آنے والے اساتذہ، یہاں اپنے بہت سے سابقہ شاگردوں کو دیکھ کر اُن میں گھل مل گئے۔اگلے روز روزنامہ 'جنگ' میں شائع ہونے والے کالم 'جمہورنامہ' میں جناب رؤف طاہر نے لکھا کہ