کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 99
ہے کہ مولانا حسین روپڑی کے دو صاحبزادگان اور بھی ہیں: حافظ عبد الماجد (کراچی) اور حافظ عبد الوحید روپڑی (لاہور) حفظہما اللہ تعالیٰ، یہ دونوں بھی ماشاء اللہ خاندان کے علم وعمل اور دینی اَقدار و روایات کے حامل اور پابند ہیں اور دنیوی وسائل سے بھی خوب خوب مالا مال ہیں۔ وہ ان خداد وسائل فراواں سے دین اور علوم دینیہ کی خدمت اور نشر واشاعت کا نہایت قابل قدر کام سرانجام دے سکتے ہیں لیکن افسوس وہ اس میں کوتاہ دست واقع ہوئے ہیں بلکہ حافظ عبد الوحید روپڑی صاحب تو جو مالی تعاون جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) سے کیا کرتے تھے، بھائیوں کے اختلافات کی وجہ سے انہوں نے مسلسل کئی سالوں سے اس کا سلسلہ موقوف کیا ہوا ہے۔ کاش ایسا نہ ہوتا!! دینی ادارے اللہ کے توکل پر ہی چلتے ہیں اور مذکورہ عدم تعاون کےباوجود جامعہ رحمانیہ حسب ِسابق چل رہا ہے بلکہ شاید اُس وقت سے زیادہ وسیع پیمانے پر چل رہا ہے جب اس کو حافظ عبدالوحید صاحب کی طرف سے زکوٰۃ کی ایک خطیر رقم ملتی تھی او راس کےنظم و انصرام میں وہ خود بھی شریک تھے۔ یہ بات اُن کےلئے قابل غور ہونی چاہیے کہ جائداد اور کاروباری اختلافات کی وجہ سے اُنہوں نے اپنے خاندان کے ایک دینی و علمی ادارے سے، جس کے قیام و بقا میں اُن کا بھی معتدبہ حصہ ہے، عدم تعاون کی پالیسی کو جاری رکھنےکا کوئی معقول جواز ہے؟ حسرت یہی ہے کہ کاش ایسا نہ ہوتا۔ اخلاص کا تقاضا تو یہ تھا اور ہے کہ وہ اختلافات کےباوجود اس کو اپنا ہی ادارہ سمجھتے ہوئے اس تعاون سے دست کش نہ ہوتے جو وہ سالہا سال سے اس کے ساتھ کرتے چلے آرہے تھے۔ یہ انہی کے خاندان کا جاری کردہ چشمۂ فیض ہے جس سے تشنگانِ علوم نبوت سیراب ہورہے ہیں اور جو اُن کےخاندان کی نیک نامی کا باعث اور عند اللہ سرخ روئی کاذریعہ ہے۔اس حسرت کے ساتھ آرزو یہی ہے کہ حافظ صاحب موصوف اپنے موجودہ رویّے پرنظرثانی فرمائیں اوردونوں کے چھوٹے بھائی حافظ عبدالماجد صاحب (ایم ڈی حفاظ سیم لیس پائپ انڈسٹریز)بھی اس کارِخیر میں بایں طور حصہ لیں کہ وہ خود بھی اپنےمالی وسائل کےمطابق خاندان کی علمی و دینی روایات کو آگےبڑھانےمیں سرگرمی سے حصہ لیں اوردونوں بھائیوں کو ایک دوسرے کے قریب کرکے اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ جامعہ اور اس کے ملحقہ اداروں