کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 96
جسے پہلے کوئی جانتا بھی نہیں تھا لیکن آج وہ علم و عمل کی روایات کا حامل ہے اور لاکھوں دلوں کی محبت و عقیدت کا مرجع و مرکز، یہ نوجوان ابتسام جہاں بھی جاتا ہے نوجوان اس کے لئے دیدہ ودل فرش راہ کرتے ہیں، بوڑھے اس کی بلائیں لیتے اور اسے دعائیں دیتے ہیں اور لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنےکے لئے بے تابانہ دوڑتے ہیں۔ عظمت و محبوبیت کا یہ مقام ، جو کسی لکھ پتی، ارب پتی یا اس کے بیٹے کو حاصل نہیں۔ حافظ ظہور الٰہی کے بیٹوں اور پوتوں کو محض اس لئے حاصل ہے کہ وہ دین کی خدمت کررہے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے محاذ پر سرگرم ہیں اور آدم جی اور داؤد جی یا ٹاٹا، برلا بننے کی بجائے اُنہوں نے دین کا سپاہی بننا پسند کیا ہے۔ آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق من کان للّٰه ، کان اللّٰه له (جو اللہ کا ہوجاتا ہے اللہ بھی اس کا ہوجاتا ہے) اللہ کی مدد ان کے شامل حال ہے۔ اہل تجارت و کاروبار کےلئے اس میں عبرت و موعظت بھی ہے اور قابل تقلید نمونہ بھی ۔ کاش انہیں بھی حاجی ظہور الٰہی کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق ارزانی ہو۔[1] و یرحم اللّٰه عبدًا قال آمينا [مزید اضافہ کے لئے آخر میں نمبر5 کے تحت] استدراکات (1) روپڑی خاندان کے عظیم اسلاف کے اخلاف میں سے بتلایا گیا تھا کہ صرف حافظ عبدالرحمٰن مدنی حفظہ اللہ (حافظ محمد حسین روپڑی کے صاحبزادے) اپنے خاندان کی علمی روایات کا علم بلند کئے ہوئے ہیں، باقی گم نامی کی نذر ہوگئے کیونکہ وہ علم و عمل کی ان روایات سے وابستہ نہیں رہے جس نے اس خاندان کو عظمت و وقار کا ایک خاص مقام عطا کیا تھا۔ حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحب کے چار صاحبزادے ہیں: حافظ حسین ازہر، حافظ حسن مدنی، حافظ انس مدنی اور حافظ حمزہ مدنی۔ چاروں نے باقاعدہ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم حاصل کی ہے اور اسلامی علوم اور دینی اداروں کی خدمت کے ذریعے ماشاء اللہ خاندان کی علمی و دینی روایات کے امین بن گئے ہیں۔ سلّمهم اللّٰه تعالىٰ وبارك في علمهم وعملهم حافظ صاحب موصوف کے چاروں بیٹے علم قدیم و علم جدید کا حسین امتزاج ہیں اور سب
[1] ہفت روزہ 'الاعتصام' لاہور،14جولائی 1995ء