کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 95
میں ہمارے سامنے ہے۔ والد کی شہادت کے بعد اس نوعمر بچے نے از خود اپنے شوق سے قرآن مجید حفظ کیا۔ اپنی تعلیم میں مصروف رہا اور اب وہ (غالباً) انجینئرنگ کے آخری امتحان کے مرحلے میں ہے یا شاید اس سے فارغ ہوگیا ہے۔ ایک ملاقات میں راقم کے استفسار پر اس نے بتلایا کہ اس امتحان کے بعد وہ احادیث کی کتابیں سبقاً پڑھنے کا عزم رکھتا ہے۔ راقم نے بھی تاکید کی کہ یہ علم نہایت ضروری ہے اور اس کے بغیر خطابت میں وہ رنگ اور زور پیدا نہیں ہوگا جو علامہ مرحوم کو ودیعت کیاگیا تھا۔ اس روز کی گفتگو میں ابتسام نے یہ بھی بتلایا کہ میں اپنے سب چھوٹے بھائیوں کو دینی علوم سے آراستہ کرنا چاہتا ہوں اور معتصم الٰہی عنقریب ریاض یونیورسٹی جارہا ہے۔ علاوہ ازیں اس ملاقات میں راقم نے یہ بھی محسوس کیا کہ ابتسام کے مزاج میں تیزی اور بڑائی کی بجائے نرمی اور تواضع ہے، غصے کے بجائے بُردباری ہے۔ ہاؤہو کے مقابلے میں سکون اورٹھہراؤ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جماعتی اختلافات اور دھڑے بندیوں سے بالا رہنے کا عزم و جذبہ بھی۔ علم کے ساتھ یہ ساری خوبیاں اسے ایک عظیم خطیب ، نامور عالم اور داعئ کبیر بنا سکتی ہیں اور یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ وہ اللہ کے فضل و کرم سے اسی صراطِ مستقیم کی طرف گامزن ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کا حامی اور مددگار ہے۔[مزید اضافہ کے لئے آخر میں نمبر4 کے تحت] اصل مقصد اور حاصل گفتگو حاجی ظہور الٰہی صاحب کے حوالے سے ان تمام باتوں کی تفصیل سے، اللہ جانتا ہے کسی صلے تمنا یا ستائش کی آرزو نہیں ہے، نہ کسی کی تعریف و توصیف ہی مقصود ہے۔ اصل مقصد صرف اسی پہلو کو اُجاگر کرنا ہے کہ شیخ ظہور الٰہی مرحوم نے تجارت پیشہ ہونے کے باوجود اپنی اولاد کو تجارت میں اپنا معاون اور شریک بنانے کی بجائے اُنہیں دین کا خادم اور سپاہی بنانا پسند کیا تو اللہ نے ان کے اس جذبے اور سعی کو اس طرح قبول فرمایا کہ آج وہ اُمید ہے کہ اللہ کے ہاں بھی سرخرو ہوں گے۔ اور ان کی اولاد اور اب پوتے بھی عزت و احترام کے مقام بلند پر فائز اور عظمت و شہرت سے ہم کنار ہیں۔ ان کے ایثار و اخلاص نے جماعت کو ایک نیا خاندان دیا ہے،