کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 94
حاجی صاحب کی مساعئ حسنہ اور تعلیم و تربیت کا یہ فیض جو ہم دیکھ رہے ہیں، اُن کی صُلبی اولاد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اب ان کی دوسری نسل یعنی پوتوں میں بھی منتقل ہورہا ہے اور وہ بھی دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور ہوکر دین کے مجاہد اور سپاہی بن رہے ہیں۔ ڈاکٹر فضل الٰہی کے دو بچے ماشاء اللہ باپ دادا کے نقش قدم پرچلتے ہوئے ریاض یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں اور وہاں دینی علوم حاصل کررہے ہیں ان میں سے ایک حافظ قرآن بھی ہے۔ علامہ احسان الٰہی رحمۃ اللہ علیہ کا صاحبزادہ عزیزم حافظ ابتسام الٰہی ظہیرالولد سّر لابیه کے مصداق نامور باپ کی طرح خطابت کی فطری خوبیوں سے مالا مال، داعیانہ صفات کا حامل اور تبلیغ و دعوت کے جذبے سے سرشار ہے۔ آج سے آٹھ سال قبل، جب کہ ابتسام ابھی نوعمر بھی تھا اور علم کی بلندیوں سے ناآشنا بھی۔ لیکن 30/اکتوبر 1987ء میں منعقدہ ایک عظیم الشان احتجاجی جلسے میں اس نےجو تقریر کی تھی، ا س پر تبصرہ کرتے ہوئے راقم نے اس وقت لکھا تھا: ''جب علامہ شہید کانوعمر صاحبزادہ ابتسام الٰہی ظہیر اسٹیج پر نمودار ہوا تو عوام کے جذبات کی بے پناہی نے صبر و ضبط کے سارے بند توڑ دیئے۔ ہر آنکھ اشک بار ہوگئی، ہر دل تڑپ اُٹھا اور علامہ مرحوم کی یادوں نے چٹکیاں لینی شروع کردیں۔ صاحبزادے سلمہ اللہ تعالیٰ نے تقریر بھی خوب کی۔ نوعمری اور کم علمی کے باوجود وہ نہایت ولولہ انگیز اور بڑی معقول، جچے تلے الفاظ، جن میں جوش و جذبات کی ہم عنانی بھی تھی، اور ولولوں کی فراوانی بھی، عزم و حوصلہ بھی تھا اور تدبّر و دانش برہانی بھی، سکون اور ٹھہراؤ بھی تھا اور دریا کی سی روانی بھی، بادِصبا کی سُبک خرامی بھی اور طوفان کی سی طغیانی بھی، یوں گویا صاحبزادہ الولد سّر لابيه کا مصداق ثابت ہوا۔ ہر دل سے صداے تحسین بلند ہورہی تھی اور ہر لب مصروفِ دعا تھا کہ بارِالٰہا! اس صاحبزادے کو بھی عالم و خطیب اور دین کا بے باک سپاہی بنا۔''[1] الحمدللہ، لوگوں کی دعائیں مقبول ہوئیں اور آج یہ نوعمر ابتسام، نوجوان خطیب کے روپ
[1] ہفت روزہ 'تنظیم اہلحدیث' لاہور، 13/ نومبر1987ء