کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 91
دوسری بڑی خوبی کی ہورہی تھی کہ اُنہوں نے معاشرے کی عام روش کے خلاف ایک متوسط کھاتے پیتے ہونے کے باوصف اپنی اولاد کو دین کے لئے وقف فرمایا۔ اُنہیں مدرسوں میں پڑھایا اور دینی علوم سے اُنہیں آراستہ کیا۔ ان کے اس جذبے اور اخلاص کو اللہ نےقبول فرمایا۔ ان کا بڑا بیٹا مدرسے کی چٹائیوں پربیٹھ کر جب علومِ نبوت سے سرفراز ہوا تو دنیا کے اسٹیج پر علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں نمایاں ہوا۔ زندگی کے اعتبار سے اگرچہ وہ شعلۂ مستعجل ثابت ہوئے اور 42 سال کی عمر میں ہی مظلومانہ شہادت سے ہم کنار ہوکر راہ گراے عالم بقا ہوگئے ، لیکن اپنی شخصیت اور خدمات کی وجہ سے آج بھی وہ نہ صرف لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں بلکہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہیں، زندہ ولولوں اور جذبوں کی علامت ہیں۔ مسلکی غیرت اور حمایت کا ایک عظیم سنبل ہیں، ان کی خطابت کی معرکہ آرائیوں اور دل آویزیوں کی یاد آج بھی لوگوں کو تڑپاتی اور رُلاتی ہے اور ان کی کتابوں نے فرقِ باطلہ کی جس طرح بخیہ دری کی ہے۔ اہل علم اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ غفراللّٰه له ورحمه رحمة واسعة حاجی صاحب کے دوسرے بیٹے بھی عالم فاضل ہیں۔ ڈاکٹر فضل الٰہی حفظہ اللہ زباں پہ بارِ خدا یا یہ کس کا نام آیا کہ میرے نطق نے بو سے مری زباں کے لئے ڈاکٹر صاحب موصوف دینی علوم سے آراستہ ہی نہیں ہیں بلکہ ریاض یونیورسٹی میں دینی علوم کے اُستاذ اور پروفیسر ہیں، جہاں پوری دنیاے اسلام کے نوجوان ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے اور ان سے کسبِ فیض کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاک و ہند کے سلفی حلقوں میں ان کے درس ہوتے ہیں جن سے اُردو دان حضرات مستفید ہوتے ہیں۔ راقم کو ریاض کے قیام کے دوران اُن کے درسوں میں شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ لوگ نہایت ذوق و شوق کے ساتھ ان میں شرکت کرتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب بھی وعظ و نصیحت کا حق خوب خوب ادا کرتے ہیں۔ ان کے اندازِ بیان میں علم و فضل کی فراوانیوں کےساتھ جو سادگی، اخلاص اور تاثیر و برکت ہے، وہ آج کل نہایت کمیاب ہے ۔ راقم نے انہیں نہایت قریب سے جب دیکھا تو اُن کے کردار کی رفعت، علم و عمل کی جامعیت، زہد و تقوےٰ اور