کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 89
دینی علوم کی قدر لوگوں کےدلوں سے کم یا ختم ہوگئی ہے اور اسی حساب سے دین کا وقار بھی مجروح اور متأثر ہوا ہے، اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ علما بھی ، جن کا سارا وقار، دین اور دینی علوم کی وجہ سے ہی ہے ، اپنی اولاد کو مدرسوں میں پڑھانے کی بجائے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھانا یا تجارت ،کاروبار سے انہیں وابستہ کرنا پسند کرتےہیں۔ جب معزز گھرانوں کے بعد، خود علما کے دلوں سے بھی علوم نبوت کا احترام اُٹھ جائے تو اس بات کا رہا سہا وقار بھی کس طرح قائم رہ سکتا ہے؟ چنانچہ دینی علوم کی بے توقیری سے ، دینی علوم کا دائرہ سمٹ اور سکڑ رہا اور معاشرے سے دینی گرفت کمزور ہورہی ہے۔ حالانکہ معزز گھرانوں سے اس کا تعلق منقطع ہوجانے کے بعد، دینی و علمی خاندانوں کی دینی و علمی روایات ہی دینی علوم کے فروغ اور دین کی نشرواشاعت کا ذریعہ تھیں اور ہیں اور کئی نسلوں سے وہ اس میں ممتاز چلے آرہے ہیں۔جیسے غزنوی خاندان ہے جس کی چار نسلوں نے مسلسل دینی علوم کے تحفظ و فروغ اور دینی اقدار و روایات کی سربلندی کا قابل قدر کام کیا ہے۔ آج اس کی بدولت اس خاندان اور اس کے اکابر کا احترام لاکھوں دلوں میں موجود ہے۔ لیکن آج لاکھوں دلوں کی محبت کا مرکز کوئی صاحبِ علم غزنوی نہیں، ان کے دل اظہارِ عقیدت کے لئے بے قرار ہیں لیکن وہ محرابِ علم اُنہیں نظر نہیں آرہی ہے جہاں وہ سجدہ ہائے نیاز بجا لاسکیں۔ لکھوی خاندان ہے جو کئی پشتوں سے علم و عمل کی جامعیت ، دینی علوم کے فروغ و بقا اور دعوت و تبلیغ میں ممتاز چلا آرہا ہے اور اب تک وہ ممتاز ہے۔ اس کے بعض افراد اب سجدہ ٔسہو کرنے لگے ہیں، لیکن اُنہیں سوچنا چاہیے کہ دینی علوم سے وابستگی نے انہیں لاکھوں دلوں میں احترام و محبوبیت کا جو مقام عطا کیا ہوا ہے، اگر ان کی اولاد اس شرف سے محروم رہی تو وہ اس احترام و محبوبیت سے بھی محروم ہی رہے گی۔ دینی علم اور اس کی وجہ سے حاصل ہونے والے احترام کے مقابلے میں دنیا کا یہ چند روزہ متاعِ غرور، نعم البدل ہے یا بئس العوض؟ روپڑی خاندان کے گل ِسرسبد، مجتہد العصر حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کی علمی خدمات اور ان کے برادر حافظ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ روپڑی کی تدریسی خدمات، ان کے بھتیجے حافظ عبدالقادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کی