کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 88
حاجی صاحب مرحوم کے اس موقف سے اختلاف نہیں کرسکتا۔ یقیناً حاجی صاحب کا موقف صحیح تھا، اسلام اور دینی حمیت کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے حالات میں عورتوں کی شرکت کو ممنوع یا کم از کم پردےکی پابندی کے ساتھ مشروط کیا جائے۔ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری بڑی خوبی یہ تھی کہ اُنہوں نےایمان و عمل کے اس مومنانہ کردار کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا۔ بلکہ اسے اپنی اولاد میں بھی منتقل کیا اور اُنہیں دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا۔ آج کل اہل ثروت و جاہ کو تو چھوڑیئے، متوسط گھرانے کے خوش حال لوگ بھی اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے بہرہ ور کرنے کونہایت معیوب گردانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف انہی لوگوں کا کام ہے جو غریب ہیں، مفلس اور نادار ہیں۔ چنانچہ ان کی بڑی اکثریت تو دین سے اور اس کی تعلیمات سے ویسے ہی نابلد ہے لیکن جو افراد دین کا شعور رکھتے ہیں اور اس کے تقاضوں کا کچھ اہتمام کرتے ہیں، وہ دینی اداروں کی سرپرستی تو کرتے ہیں بلکہ دینی مدرسے قائم بھی کرتے ہیں۔ طلباے علوم دینیہ اور علما کی خدمت کو بھی سعادت تصور کرتے ہیں، لیکن اپنی اولاد کو دین کے لئے وقف کرنے اور اُنہیں دینی علوم سے بہرہ ور کرنے کا ان کے ہاں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک نہایت ہی خطرناک بیماری ہے۔ جب مسلمان معاشرے میں یہ بیماری نہیں آئی تھی اس وقت مسلمان معاشرے کے شرفاء خوش حال افراد اور خاندانوں میں دینی تعلیم کا چرچا اور اپنی اولاد کو دینی علوم سے آراستہ کرنے کا جذبہ عام تھا۔ اس کے نتیجے میں ایک تو یہ علومِ نبوت و وحی، ایک نسل سے دوسری نسل میں اور ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں منتقل ہوتے رہتے تھے، جس سے یہ علوم فروغ پاتے اور نہایت آسانی سے ان کی نشوونما کا سلسلہ جاری رہتا۔ دوسرا، اس سے اِن علوم کا وقار اور احترام لوگوں کے دلوں میں قائم تھا، کیونکہ معزز گھرانے اِن کامرکز تھے۔ ان کی خاندانی شرافت و نجابت سے اِن علوم کی قدرومنزلت بھی برقرار تھی۔ جیسے آج کل معزز گھرانے انگریزی تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں تو انگریزی تعلیم کی اہمیت اور قدر و منزلت لوگوں کے دلوں میں ہے اور علوم دینیہ کی قرارِ واقعی قدرومنزلت سے، دین کا وقار بھی قائم تھا اور دین پر عمل کا جذبہ بھی عام۔ لیکن جب سے معاشرے کے بظاہر معزز گھرانوں نے دینی علوم سے اپنا رشتہ توڑا ہے ، اس وقت سے ہی