کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 87
سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں! اتباع سنت یا عمل بالحدیث کا جذبہ، جو پہلے اہل حدیث عوام و خواص کا نشان اور شعار تھا، آج کل یہ جذبہ سمٹ سمٹا کرمسجد کی چار دیواری تک محدود ہوگیا ہے۔ مسجد کی حد تک اہلحدیث ، اہلحدیث ہے۔ اتباعِ سنّت،آمین بالجہر، رفع الیدین، مسنون صف بندی اور اسلامی وضع وغیرہ پر عمل ہورہا ہے۔ ان مسائل پر خوب بحثیں ہورہی ہیں، دوسروں سے مناقشات ہورہے ہیں، لیکن مسجد سے باہرنکلنے کے بعد تجارت و کاروبار کے میدان میں، لین دین کے معاملات میں، بندوں کے حقوق و فرائض کی ادائیگی میں اور شادی بیاہ کے مواقع پر کسی اہل حدیث کو یاد نہیں ہے کہ وہ اہلحدیث ہے اور اتباعِ سنت کے تقاضوں کو بروئے کار لانا ہے، جھوٹ، فریب، ظلم وزیاتی سے اجتناب کرنا اور رسم و رواج دنیا سے دامن بچانا ہے۔إلا من شاء اللّٰه حاجی صاحب مرحوم اس لحاظ سے ممتاز تھے کہ وہ اہل حدیث کے امتیازی مسائل میں بھی خوب شدّت سے عمل پیرا تھے، ان کے لئے بحث و مناظرہ میں بھی سرگرم تھے بلکہ مقلدین کے لئے سیفِ بُراں تھے، لیکن اس کے ساتھ ہی زندگی کے دوسرے میدانوں میں احادیث نبویہ کے متبعین کا جو امتیازی کردار ہونا چاہیے، وہ اس کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ ان کی زندگی، دینی غیرت و حمیّت سے عبارت تھی۔ بے حیائی اور بے پردگی پر مبنی رسومات جو اس وقت اہل حدیث میں بھی عام بلکہ روز افزوں ہیں، وہ اُن کے سخت خلاف تھے اور نہایت سختی سے ان پر نکیر فرماتے۔ ان کا بجا طور پر یہ خیال تھا کہ آج کل شادیاں عورتوں کے حسن و جمال، اُن کے لباس اور زیور کی نمائش گاہیں بن گئی ہیں۔ عورتیں اس طرح بن ٹھن کر اور بالکل بے پردہ ہوکر اِن تقریبات میں شرکت کرتی ہیں گویا وہ حسن، لباس اور زیورات کے مقابلے میں جارہی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ شادیوں میں عورتوں کو شریک نہ کیا جائے، ان کی شرکت سے اسلام کی تعلیمات کی مٹی پلید ہورہی ہے اور مسلمان عورتوں میں بے حیائی اور بے حجابی کو فروغ مل رہا ہے جس شخص کو بھی اسلام کا صحیح شعور حاصل ہے اور اُس کی دینی غیرت و حمیت بھی بیدار ہے ، وہ